بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

جیک لندن

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک عرصہ وہ دربدر روٹی مانگا کرتا تھا مگر ایک زمانے میں لوگ اس کے آٹو گراف کے لیے ترسا کرتے تھے۔چالیس برس سے بھی پہلے کا ذکر ہے۔ ایک خستہ حال اور آوارہ نوجوان ایک مال گاڑی سے نکل کر بفلو شہر میں داخل ہوا اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھر گھر روٹی مانگنے لگا۔

ایک سپاہی نے آوارہ گردی کے الزام میں اسے پکڑ لیا اور جب اسے مجسٹریٹ کے سامنے لایاگیا تو مجسٹریٹ نے اسے ایک ماہ قید با مشقت کی سزا دے دی۔ تیس روز تک وہ پتھر توڑتا رہا اور جیل کی سوکھی روٹیاں کھاتا رہا۔ لیکن چھ برس بعد۔۔۔ فقط چھ برس بعد وہی خستہ حال، آوارہ اور بھک منگا نوجوان مغربی امریکہ کا اہم ترین شخص بن گیا۔ کیلی فورنیا کے معزز گھرانے نے اسے اپنے یہاں مدعو کرتے۔۔۔ ادیب نقاد، ایڈیٹر اسے ادبی افق کا ایک روشن ستارہ سمجھتے تھے۔انیس برس کی عمر سے پہلے وہ کبھی ہائی سکول نہیں گیاتھا۔ وہ ابھی چالیس برس کا ہوا تھا کہ وہ فوت ہوگیا لیکن وہ اپنے پیچھے اکاون کتابیں چھوڑ گیا۔وہ جیک لندن تھا۔۔۔ ’’جنگل کی پکار‘‘ کا مصنف۔ جب جیک لندن نے 1903ء میں ’’جنگل کی پکار‘‘ لکھی تو وہ ایک رات کے اندر اندر مشہور ہو گئی۔ ایڈیٹر کہانیوں کے لیے اس کے پیچھے بھاگنے لگے۔ لیکن اسے اپنی پہلی مشہور کتاب کا بہت کم معاوضہ ملا۔ ناشروں اور بعد میں ہالی ووڈ کے فلم سازوں نے اس کی کتاب سے دو لاکھ پونڈ کمائے۔ لیکن اس نے ’’جنگل کی پکار‘‘ کے جملہ حقوق فقط چار سو پونڈ میں فروخت کیے تھے۔اگر آپ کوئی کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کے پاس لکھنے کے لیے مواد ہوناچاہیے۔ جیک لندن کی حیرت ناک کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کی مختصر ولولہ انگیز زندگی کی دس ہزار رنگا رنگ تجربات سے بھری پڑی تھی۔

وہ جہاز ران، قزاق اور کان کن رہ چکاتھا۔ اس نے نصف دنیا کے گرد چکر لگایا تھا اور ایک خستہ حال نوجوان کی حیثیت سے اس نے اپنے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ اکثر بھوکا رہتا۔ وہ پارکوں میں پڑے ہوئے بنچوں گھاس کے گھٹوں اور مال گاڑی کے ڈبوں میں سوتاتھا۔ وہ اکثر ننگی زمین پر سوتاتھا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں سویا ہوا پایا۔ بعض دفعہ وہ اس قدر تھکا ہوا ہوتا کہ مال گاڑی کی سلاخ سے لٹکا لٹکا سو جاتا۔

اس نے سینکڑوں دفعہ جیل کی ہوا کھائی۔ وہ میکسیکو، منچوریا، جاپان اور کوریا کے قید خانوں کی سیر بھی کر آیا تھا۔جیک لندن کا بچپن افلاس اور سختیوں میں گھرا ہوا تھا۔ وہ قزاقوں کے ایک ایسے گروہ کا کارکن بھی رہ چکا تھا۔ جو خلیج سان فرانسسکو کے لمبے ساحلوں پر جہاز لوٹا کرتا تھا۔ سکول جانے کے خیال پر وہ قہقہہ لگاتا اور زیادہ وقت جوا کھیلتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ یونہی گھومتا گھومتا ایک پبلک لائبریری میں چلاگیا اور بیٹھ کر ’’روبن سن کروسو‘‘ پڑھنے لگا۔

اس کتاب نے اسے مسحور کر دیا۔ بھوکا ہونے کے باوجود وہ اس دن گھر کھانا کھانے نہ گیا۔ دوسرے دن وہ کوئی اور کتاب پڑھنے کے لیے بھاگا بھاگا لائبریری گیا۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا کے دروازے کھل رہے تھے۔ اب کہ لاف لیلی اس کے ہاتھ لگی۔ اس وقت کے بعد کتابوں کے مطالعہ کی ایک ناقابل تسکین پیاس اس پر مسلط ہوگئی۔ اس وقت کے بعد کتابوں کے مطالعہ کی ایک ناقابل تسکین پیاس اس پر مسلط ہو گئی۔ اکثر وہ ایک دن میں دس سے پندرہ گھنٹے مطالعہ کرتا۔

’’نک کارٹر‘‘ سے ’’شیکسپیئر‘‘ تک اور ہربرٹ سپنسر سے کارل مارکس تک جو کتاب بھی اس کے ہاتھ لگی۔ اس نے پڑھ ڈالی۔ جب وہ انیس برس کا ہوا تو اس نے جسمانی محنت کی بجائے دماغی محنت کرنے کا تہیہ کر لیا۔ وہ آوارگی، سپاہیوں اور ریلوے ملازمین کی مار سے تنگ آ چکاتھا۔لہٰذا انیس برس کی عمر میں وہ لوک ہند (کیلی فورنیا) کے ایک ہائی سکول میں داخل ہوگیا۔ وہ دن رات پڑھتا۔ وہ نیند کی بھی پرواہ نہ کرتاتھا۔

اس نے چار سال کا نصاب تین ماہ میں ختم کردیا اور امتحان پاس کرکے کیلی فورنیا یونیورسٹی داخل ہوگیا۔ ایک بڑا ادیب بننے کے جذبے کے تحت ’’ٹریز آئی لینڈ‘‘ دی کاؤنٹ آف ماؤنٹی کرسٹو‘‘ اور ’’اے ٹیل آف ٹوسٹی‘‘ کو بار بار پڑھا اورپھر ایک آتشیں جذبے کے تحت لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ ہر روز پانچ ہزار الفاظ لکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیس دن میں ایک مکمل ناول۔۔۔ بعض اوقات مختلف ایڈیٹروں کے پاس اس کی تیس کہانیاں ہوتیں۔ لیکن وہ سب واپس آ جاتیں۔

ابھی تو وہ اپنا کام سیکھ رہاتھا۔ پھر ایک دن اس کی ’’جاپان کے ساحل پر طوفان نامی‘‘ ایک کہانی نے کہانیوں کے مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا۔ اس کہانی کے اسے فقط چار پونڈ ملے لیکن اس خستہ حالی میں یہ چار پونڈ بھی اس کے لیے ایک جاگیر سے کم نہ تھے۔وہ 1986ء کا سال تھا۔ ایک ڈرامائی اور ولولہ انگیز سال۔ کلن ڈائک میں سونا دریافت ہواتھا۔ یہ خبر آگ کی طرح سارے امریکہ میں پھیل گئی اور امریکی قوم پاگل ہو گئی۔ دکان داروں نے دکانیں، سپاہیوں نے فوج، کسانوں نے زمین اور تاجروں نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا۔

ہر کوئی سونا حاصل کرنے ہوس میں بھاگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک جم غفیر وہاں جمع ہو گیا۔۔۔جیک لندن بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ وہ پورے ایک برس تک سونے کی کھوج میں سرگرداں رہا۔ اس جدوجہد میں اس نے ناقابل یقین حد تک سختی برداشت کی۔ وہاں انڈے کی قیمت ایک روپیہ اور مکھن بارہ روپے پونڈ کے حساب سے فروخت ہونے لگا۔ وہ سردیوں میں یخ بستہ زمین پر سوتا رہا۔ آخر کار وہ خستگی کی حالت میں امریکہ چلا آیا۔ اس نے گھٹیا سے گھٹیا کام بھی کیا۔

اس نے ہوٹلوں میں برتن صاف کیے۔ فرشوں پر جھاڑو دیا۔ وہ جہازوں اور کارخانوں میں کام کرتا رہا۔پھر جب ایک دن جب کہ اس کا کل اثاثہ دس شلنگ تھا۔ اس نے جسمانی محنت ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنا سارا وقت ادب کے لیے وقف کرنا چاہتا تھا۔ وہ 1898ء کا تھا۔ پانچ برس بعد وہ اپنی چھ کتابیں اورایک سوپچیس کہانیاں شائع کرا چکا تھا۔ اور ادبی دنیا میں اس کا سب سے زیادہ چرچا تھا۔جیک لندن نے 1916ء میں وفات پائی۔ ادبی زنادگی کرنے کے فقط اٹھارہ برس بعد، اس نے تین ناول فی سال کے حساب سیکھے۔

ان کے علاوہ ان گنت کہانیاں۔اس کی سالانہ آمدنی امریکہ کے صدر کی سالانہ آمدنی سے دگنی تھی۔ اس کی کتابیں آج بھی یورپ میں بے حد مقبول ہیں۔ اس کا شمار ان امریکی ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کتابیں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں۔’’جنگل کی پکار‘‘ جس کا معاوضہ اسے فقط چار سو پونڈ ملاتھا، بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اس کی پندرہ لاکھ سے زیادہ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں اور وہ امریکی ادب کی مقبول ترین کتاب ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…