حال ومستقبل کو تابناک بنانے و خوشحال بنانے کے لیے اولاد کی دینی تربیت نہایت ضروری ہے جس میں بنیادی کردارماں کا ہوتاہے کہ ماں کی گود سب سے پہلا مدرسہ ہے۔ جہاں قومیں پروان چڑھتی ہیں۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ ہندوستان میں ایک بزرگ گزرے ہیں جو مغل بادشاہوں کے بھی پیر و مرشد تھے۔ ان کاواقعہ ہے کہ پیدائش کے بعد ذرا سمجھ دار ہوئے تو ان کے والدین کو ان کی تربیت کا احساس ہوا۔
چنانچہ ماں نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک بات ہے جس پرمیں کل سے عمل کروں گی جس کی برکت سے میرا بیٹا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والابن جائے گا۔ اگلے دن بیٹا مدرسے گیا تو والدہ نے کھاناتیار کرکے کمرے میں چھپا کر رکھ دیا۔ بچے نے آ کر کھانا مانگا تو ماں نے کہا بیٹا اللہ تعالیٰ ہی ہمیں کھانا دیتے ہیں لہٰذا تم نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ چنانچہ نماز و دعا کے بعد کمرے میں جا کر دیکھاتو وہاں کھانا تیار تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ایک دن والدہ کو کسی کے ہاں جاناپڑ گیا اور بچے کے مدرسے سے واپسی کاوقت ہوگیا۔ اب ماں بہت پریشان کہ کھانا تیار نہیں، اسی حسرت و افسوس میں روتی دعائیں کرتی ہوئی جلدی سے گھر کے لیے روانہ ہوئیں کہ کہیں میری محنت ضائع نہ ہو جائے۔گھر آ کر بچے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ امی میں نے تو کھانا کھالیا ہے لیکن آج کے کھانے میں جو مزہ تھا وہ پہلے کبھی نہیں ملا۔ ماں نے بچے کو سینے سے لگالیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ سبحان اللہ! جب مائیں اپنے بچوں کی تربیت ایسے نقوش پر کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ بچوں کو روشنی کا میناربنا دیاکرتے ہیں۔ یہی بچہ اتنا بڑا شیخ بنا کہ مغل بادشاہ ان کے مرید ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ان سے دینی فائدہ حاصل کیا۔ آج بھی اگر مائیں معمولی فکر وتوجہ سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی ایسے سعادت مند بچے تیارہوں جو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنے قبیلہ کی آنکھ کا تاراہوں۔