محمد اسحاق ملتانی کہتے ہیں کالے برقع میں ملبوس خاتون زار و قطار رو بھی رہی تھی اور بد دعاؤں اور گالیوں کی صورت میں اپنے دل کا غبار بھی نکال رہی تھی۔ وہ سانس لینے کے لیے رکی تو میں نے پوچھا: ’’بہن! کچھ بتاؤ توسہی ہواکیاتھا؟ستم زدہ خاتون نے سسکیوں اور ہچکیوں پر بمشکل قابو پاتے ہوئے رک رک کر داستان ستم سنانا شروع کی۔
مولانا! میں شریف مگرغریب گھرانے کی بیٹی ہوں۔ میرے والد پنج وقتہ نمازی تھے۔ اللہ نے انہیں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا جو سب بہنوں سے چھوٹاہے۔ ہماری تربیت میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قرآن کریم گھرہی میں پڑھایا بقدر ضرورت سکول کی تعلیم بھی دلائی۔ والدہ نے سلائی کڑھائی، کھانا پکانا غرض یہ کہ گھر گرہستی کے سارے کام سکھائے۔ جونہی ہم میں سے کوئی بالغ ہوتی والد صاحب کو اس کی شادی کی فکر لگ جاتی۔ مناسب رشتہ آتے ہی وہ سادگی کے ساتھ ہمیں گھر سے رخصت کر دیتے۔یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں غربت بہت بڑاجرم ہے جن گھروں میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں وہاں سیرت اور صورت کے باوجود اول تو رشتے آتے نہیں۔ اگر آ بھی جائیں تو رخصتی کے بعد سسرال والے مطلوبہ جہیز نہ ملنے کی وجہ سے طعنے دے دے کر بہوکا ناک میں دم کر دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہواہے۔ ابتدا میں تو شوہر نے اپنی والدہ اور بہنوں کاساتھ نہ دیا۔ مگر میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد شوہر کا رویہ بھی بدل گیا۔ انہیں میرے ہر رویے، ہرعادت، ہر کام اور ہربات میں کوئی نہ کوئی نقص نظر آنے لگا۔ زبانی توتکار کے بعد انہوں نے ہاتھ بھی اٹھانا شروع کردیا۔ میں مار پٹائی برداشت کر لیتی مگر بیوہ ماں کو کچھ نہ بتاتی۔ وہ پہلے ہی دکھی تھیں۔
انہی دنوں ایساہوا کہ ایک لڑکا گھرگھر دروازہ کھٹکھٹا کر کسی عامل صاحب کے کارڈ تقسیم کر رہاتھا۔ ایک کارڈ وہ ہمارے گھر میں بھی ڈال گیا جس پردرج ذیل مضمون لکھا ہوا تھا۔ ایک رات کا استخارہ۔ پریشانیوں سے چھٹکارا۔ جادوگری کی دنیا میں ناقابل شکست اور قلندر کی فضاؤں میں کامیاب ہونے والاواحد عامل۔ میاں بیوی میں رنجشیں پیدا ہو جائیں ذہنی سکون ختم ہو جائے۔ ان حالات میں صحیح رہبر اور روحانی عامل کی ضرورت ہوتی ہے خوشیاں گھروں میں مایوس بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔
کسی ایسے سچے عامل کی رہنمائی سے حاصل ہوتی ہیں جو دکھی دلوں کا سہارا بنے۔ کاروباری بندش توڑدے۔ بے اولاد کی گود ہری بھری کر دے۔ بیماروں کو شفادے۔ پریشانیاں دور کر دے۔ رشتے آسان کر دے آپ کی ساری مشکلات کو اپنی دعاؤں میں سمیٹنے والے مشہور عامل ’’لاہوروالے قادری باوا‘‘ 24 گھنٹے آن لائن ہر مسئلے کے لیے راز داری کی ضمانت دی جاتی ہے۔اس مضمون کے آخر میں موبائل نمبر تحریر تھا۔ میں کبھی اس کارڈ کو دیکھتی۔
کبھی والد صاحب کی تعلیم و تربیت یاد آتی کہ اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھنا۔ پھر جب اپنے سسکتے، بلکتے اور انگاروں پر لوٹتے روز و شب کی طرف نظر جاتی توخیال آتا کہ آزمانے میں کیاحرج ہے؟ شاید میرے شوہر اور ساس کارویہ بدل جائے اور میرے لیے شفقت و محبت کا جذبہ ان میں جاگ اٹھے۔ کافی دنوں تک دل و دماغ میں کشمکش سی رہی۔ بالآخر میں نے ڈرتے جھجھکتے باوا جی کا نمبر ملاہی دیا۔
جواب میں انہوں نے اتنی ملائمت اور اخلاق سے گفتگو کی کہ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی یا شاید متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ بہت دنوں بعد محبت کے دو بول سننے کوملے تھے۔ انہوں نے میری گفتگو سنتے ہی یقین دلایا کہ بہت جلد حالات نارمل ہو جائیں گے۔ بس پہلی فرصت میں ملاقات کر لیں۔اپنی باری آنے پر میں باوا جی کے خلوت کدہ میں چلی گئی۔ انہوں نے بڑے تحمل سے میری کتھا سننے کے بعد میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا جسے وہ کھینچتے ہوئے چہرے اور گردن تک لے آئے۔
میرے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی مگر ان کے ادب و احترام کی وجہ سے خاموش رہی۔ پھر انہوں نے سبز رنگ کا مشروب مجھے پینے کے لیے دیا جو ان کے بقول متبرک رنگ اور روشنی سے تیار کیا گیا تھا۔ اس دوران وہ کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتے بھی رہے۔ مجھ پر غنودگی سی طاری ہوگئی۔ میں ہوش میں آئی تو انہوں نے کچھ تعویذ جلانے کے لیے اور پانی کی بوتل دی شوہر، ساس اور نندوں کو پلانے کے لیے۔ مجھے اگلے ہفتے دوبارہ آستانے پر حاضری کا حکم دیا۔
آئندہ ہفتے باری آنے پر خلوت کدے میں پہنچی تو میرا رہبر کھل کر رہزن اور درندے کا روپ اختیار کر چکاتھا۔ اس نے جب بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو میں نے اسے ڈانٹ دیا اور اپنی حدود میں رہنے کے لیے کہا۔ میرا رویہ اور انکار دیکھ کر اس سنگ دل اور روسیاہ انسان نے ایسی فحش تصاویر میرے سامنے رکھ دیں جو اس نے گزشتہ ہفتے متبرک رنگ اور روشنی سے تیار کیاگیانشہ آور مشروب پلاکر کھینچ لی تھیں اور مجھے دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے حکم سے ذرا بھی سرتابی کی تو یہ ساری تصاویر تمہارے شوہر کو پیش کر دوں گا۔یہ دکھڑا سنا کر وہ خاتون دوبارہ آہ و بکا کرنے لگی۔
’’مولوی صاحب میں لٹ گئی۔ برباد ہو گئی۔ نہ چپ رہ سکتی ہوں نہ کسی کو اپنی بیتا سنا سکتی ہوں۔ گھر سے فرار اور ایدھی سنٹر میں پناہ لینے کے سوا مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اللہ کے واسطے! ایسے بابوں، باووں اور جعلی عاملوں کی منحوس حرکتوں سے عوام کو آگاہ کیجئے۔ ان کے بھیانک چہروں پر پڑے ہوئے مقدس پردے نوچ ڈالئے تاکہ وہ کسی دوسری بہن اور بیٹی کی عزت و ناموس سے نہ کھیلیں۔