شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک مرتبہ سہارنپور سے کانپور جارہے تھے کہ جب ریل میں سوار ہونے کے لیے اسٹیشن پہنچے تو محسوس کیا کہ ان کے ساتھ سامان اس مقررہ حد سے زیادہ ہے جو ایک مسافر کو بک کرائے بغیر اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہوتی ہے،
چنانچہ وہ اس کھڑکی پر پہنچے جہاں سامان کا وزن کرکے زائد سامان کا کرایہ وصول کیاجاتاہے تاکہ سامان بک کراسکیں کھڑکی پر ریلوے کا جو اہلکار موجود تھا وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود حضرت مولاناؒ کو جانتا تھا اور ان کی بڑی عزت کرتاتھا جب حضرتؒ نے سامان بک کرنے کی فرمائش کی تو اس نے کہا کہ مولانا! رہنے دیجئے آپؒ سے سامان کا کیا کرایہ وصول کیا جائے؟ آپ کو سامان بک کرانے کی ضرورت نہیں میں ابھی گارڈ سے کہہ دیتاہوں وہ آپ کو زائد سامان کی وجہ سے کچھ نہیں کہے گا، مولانا نے فرمایا: یہ گارڈ میرے ساتھ کہاں تک جائے گا۔ ریلوے افسر نے جواب دیا غازی آباد تک۔ مولاناؒ نے پوچھا پھرغازی آباد کے بعد کیا ہوگا؟ اس نے کہا یہ گارڈ دوسرے گارڈ سے کہہ دے گا۔ مولاناؒ نے پوچھا پھر کانپور کے بعد کیاہو گا؟ افسر نے کہا کہ کانپور کے بعد کیا ہونا ہے؟ وہاں تو آپ کاسفر ختم ہو جائے گا حضرت نے فرمایا نہیں میرا سفر تو بہت لمبا ہے کانپور پر ختم نہیں ہوگا اس لمبے سفر کی انتہا تو آخرت میں ہو گی یہ بتائیے کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ اپناسامان تم کرایہ دیے بغیر کیوں اور کس طرح لے گئے تو یہ گارڈ صاحبان میری کیا مدد کر سکیں گے؟پھر مولاناؒ نے ان کو سمجھایا کہ یہ ریل آپ کی یا گارڈ صاحب کی ملکیت نہیں ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ریلوے کے محکمے کی طرف سے آپ کو یا گارڈ صاحب کو یہ اختیار بھی نہیں دیاگیا وہ جس مسافر کوچاہیں ٹکٹ کے بغیر یا اس کے سامان کوکرائے کے بغیر ریل میں سوار کر دیا کریں،
لہٰذا اگر میں آپ کی رعایت سے فائدہ اٹھا کر بغیر کرائے کے سامان لے بھی جاؤں تو یہ میرے دین کے لحاظ سے چوری میں داخل ہوگا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اس گناہ کا جواب دینا پڑے گا۔ آپ کی یہ رعایت مجھے بہت مہنگی پڑے گی لہٰذا براہ کرم مجھ سے پورا پورا کرایہ وصول کر لیجئے۔ ریلوے کا وہ اہل کار مولاناؒ کو دیکھتا رہ گیا لیکن پھر اس نے تسلیم کیا کہ بات آپ ہی کی درست ہے۔