حضرت والد صاحبؒ کا یہ واقعہ آپ کو پہلے بھی سنایا تھا کہ مرض وفات جس میں آپ کا انتقال ہوا، اسی مرض وفات میں رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا اور رمضان المبارک میں باربار آپ کو دل کی تکلیف اٹھتی رہی اور اتنی شدت سے تکلیف اٹھتی تھی کہ یہ خیال ہوتاتھا کہ شاید یہ آخری حملہ ثابت نہ ہو جائے۔اسی بیماری میں جب رمضان المبارک گزرگیاتو ایک دن فرمانے لگے:
ہر مسلمان کی آرزو ہوتی ہے کہ اس کو رمضان المبارک کی موت نصیب ہو، میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی موت عطا فرما دے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ رمضان المبارک میں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں لیکن میری بھی عجیب حالت ہے کہ میں بار بار سوچتاتھا کہ یہ دعا کروں کہ یااللہ! رمضان المبارک کی موت عطا فرما دے، لیکن میری زبان پر یہ دعا نہیں آ سکی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں اپنے لیے رمضان المبارک کی موت طلب تو کر لوں، لیکن مجھے اندازہ ہے کہ میری موت کے وقت میرے تیمار دار اور میرے جو ملنے جلنے والے ہیں، ان سب کو روزہ کی حالت میں شدید مشقت اٹھانی پڑے گی اور روزہ کی حالت میں ان کوصدمہ ہوگا اور روزہ کی حالت میں تجہیز و تکفین کے سارے انتظامات کریں گے تو ان کو مشقت ہوگی۔ اسی وجہ سے میری زبان پر یہ دعا نہیں آئی کہ رمضان المبارک میں میرا انتقال ہو جائے پھر یہ شعرپڑھا۔تمام عمر اس احتیاط میں گزری۔۔آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو۔چنانچہ رمضان المبارک کے 11 دن کے بعد 11 شوال کو آپ کی وفات ہوئی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ جو شخص مرتے وقت یہ سوچ رہاہے کہ میرے مرنے سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اس شخص کی زندگی میں لوگوں کے جذبات کاخیال رکھنے کاکیاعالم ہوگا؟