وہ زندگی بھر اہل لبنان کو فرقہ واریت اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے تشدد سے بچنے کی تلقین کرتے رہے پانچ سال کی عمر میں جبران کو دیہات کے ایک ایسے سکول میں داخل کروایاگیا جس کا انتظام میرونی چرچ کے ہاتھ میں تھا۔ جہاں اگلے دوبرسوں کے دوران انہوں نے تمام مذہبی گیت اور مناجات زبانی یاد کر لئے۔ ان کے ناولوں النبی اور ابن آدم کے مطالعہ سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بائبل کا بہت عمیق مطالعہ کیا تھا ان کی تحریروں پر عرب صوفیا ء‘ شعراء اور دوسرے مفکرین کا بھی گہرا اثر دکھائی دیتا ہے وہ نہ صرف قدیمی لبنان علماء کے کام سے واقف تھے بلکہ نور علم سے اپنے قلب و ذہن کو منور کرنے کے لئے انہوں نے عیسائیت اور اسلام کے علاوہ بدھ مت ٗ یہودیت ٗ کنفیوشس ٗ ہندومت اور دوسرے مذاہب کا بطور خاص مطالعہ کیا اس کے علاوہ انہوں نے روسو ٗ نطشے اور ایمرسن کے حقیقی ماخذوں کا بھی گہرا جائزہ لیا۔
خلیل جبران ٗ لبنان کی خونیں تاریخ اور تباہ کن فرقہ وارانہ فسادات کے نتائج کو کبھی نہیں بھول پائے اپنے وسیع مطالعے کے سبب وہ مذاہب کی اساسی وحدت پر یقین کا برملااظہار کرتے۔ یہی وہ فکر ہے جس کااظہار کرنے میں انہوں نے کبھی تامل محسوس نہیں کیا۔ مذہبی تعصب سے کوسوں دور جبران انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کی تلقین کرتے ہیں وہ اپنے آباؤ اجداد کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق کے مخالف نہیں تھے نہ ہی انہیں کسی خاص مذہب یا فرقے سے کوئی نفرت تھی۔ انہیں ان لوگوں سے شدید نفرت تھی جو مذہبی عقائد یانسلی و لسانی تعلق کو تعصب کی بنیاد ٹھہرا کر ایسی تنگ نظر ی کو ہوا دیتے جو انسانی معاشروں کو تباہ کرنے کا موجب بنتی ۔ابتدائی دور میں انہوں نے جتنی تحریریں لکھیں وہ عربی زبان میں ہیں۔ عربی کے ایک صاحب طرزادیب کے طورپر انہوں نے جتنا لکھا اس نے جدید دور کے عرب لکھاریوں کو نئے اسلوب نگارش سے آشنا کیا۔’’ٹوٹے ہوئے پر‘‘ عربی کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتاہے۔The Prophet’’النبی‘‘ ان کی پہلی انگریزی تصنیف ہے ۔ اپنے موضوع ٗ خیالات کے اعتبار سے اسے انگریزی نثر کا شاہکار قرار دیا گیا ہے یورپ اور امریکہ کے پورے انگریزی ادب میں’’النبی‘‘ جیسی نثر اب تک نہیں لکھی جا سکی۔ حالانکہ انگریزی جبران کی مادری زبان نہیں تھی۔
عربی انگریزی اور فرانسیسی روانی سے بولنے اور لکھنے والے خلیل جبرا ن نے اپنی عربی شاعری کا بیشتر حصہ عمر کے ابتدائی حصہ میں لکھا ان کی زبان سادہ اور عام فہم تھی اسی طرح انگریزی زبان میں کی گئی شاعری بھی فنکارانہ کمال کا شکاہکار ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے عربی فرانسیسی اور انگریزی میں سے جن زبان کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا اس زبان کے بھاری بھر کم اور ثقیل الفاظ استعمال کرنے کی بجائے انتہائی سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کئے۔ اس سے جہاں ایک نئے اسلوب کی بنیاد پڑی وہیں ان کی فکر کو وسیع پیمانے پر پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔
1860ء کی دہائی میں فرقہ وارانہ عصبیت کی کوکھ سے جنم لینے والے پرتشدد ہنگاموں سے تباہ حال لبنان میں
حصول روزگار کے ذرائع محدود تھے جس سے دیگر علاقوں کی طرح وادی قادسیہ کے مختلف خاندانوں میں بھی یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی کی سوچ پروان چڑھی۔1895ء میں جب خلیل جبران ابھی بارہ برس کے تھے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ کر امریکہ منتقل ہو گئے۔ پرتشدد ہنگاموں سے تباہ حال لبنان کے مقابلہ میں کاملہ رحمت کو اپنے بچوں کے لئے امریکہ آزادی کی سرزمین کے طورپر پسند آیا اور وہ یہیں کی ہو کر رہ گئیں تیزی سے ترقی کی مراحل طے کرتے امریکی معاشرے میں بلوغت کے سال گزارنے اور جدید تعلیم سے فیض پانے نے ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔ انیسویں صدی کی آخری نصف دہائی اور بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیاں کھلے اور ترقی یافتہ امریکی سماج میں گزارنے کے باوجود وہ اپنے مادر وطن لبنان اور بالخصوص شمالی لبنان کی وادی مقدس کو لمحہ بھر کے لئے نہیں بھول پائے۔ ان کی نثر اور شاعری کی طرح مصوری میں بھی بنیادی حیثیت لبنان اور اہل لبنان کو ہی حاصل رہی اپنی پہلی تحریر سے آخری تحریر کی آخری سطر لکھنے تک وہ ایک سچے لبنانی کی حیثیت سے