لاہور( این این آئی)9مئی کے واقعات کے رد عمل میں تحریک انصاف کو خیر باد کہنے والے پارٹی رہنمائوں کی اکثریت نے آئندہ کی سیاست کیلئے دوسر ی جماعتوں میں جانے کیلئے مشاورت کا عمل تیز کر دیا ، پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) میں جانے کیلئے مشاورت کر رہے ہیں جبکہ کچھ سنجیدہ رہنما ممکنہ طور پر جہانگیر خان ترین اور عبد العلیم خان کے متحرک ہونے کی اطلاعات پر دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو خیر باد کہنے والے رہنمائوں میں سے اکثریت دوبارہ سیاست کرنے کے خواہشمند ہیں اور وہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر اپنی اگلی سیاسی منزل کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں اپنے حلقوں کے اکابرین سے مشاورت کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق کچھ رہنما ئوں کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ انہیں فی الوقت انتظار کرنا چاہیے اور اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے دعوت دئیے جانے پر انہیں باوقار طریقے سے شمولیت کا اعلان کرنا چاہیے ۔ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہنے والوں سے اپنے طور پر رابطے شروع کر دئیے ہیں اور معاملات حتمی طے پانے کے بعد اپنی اپنی مرکزی قیادت کو اس سے آگاہ کر کے شمولیت کیلئے کہا جائے گا ۔ ذرائع نے مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے کہا ہے کہ ماضی میں ہونے والے کچھ واقعات کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنی پالیسی کو تھوڑا سخت رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی لیا جائے گا جن پر مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر قیادت بھی مطمئن ہو تاکہ پارٹی میں اختلافات کی صورتحال پیدا نہ ہو ۔مسلم لیگ (ن) ایسے لوگوں کو بھی لینے کا بھی ہرگز ارادہ نہیں رکھتی جن پر جلائو گھیرائو میں ملوث ہونے کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے نامور رہنما ئوں کی اکثریت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں جانے کی خواہشمند ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے لئے دونوں جماعتوں کی طرف سے پیشکش کی جائے تاکہ ان کاسیاسی قد کاٹھ بر قرار رہ سکے ۔ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے لندن میں موجود پارٹی قائد نواز شریف کی رہنمائی کے منتظر ہے ۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کو چھوڑنے والے کچھ سنجیدہ رہنما مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ق) میں جانے کی بجائے سینئر سیاستدان جہانگیر خان ترین اور علیم خان کے دوبارہ متحرک ہونے کے منتظر ہیں اور اسی لئے انہوں نے دیکھو اور انتظار کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔