لاہور( این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی نائب صدر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایک ہفتے تک وکلاء کی تحریک شروع ہونے والی ہے ،انتخابات کے لئے فنڈز جاری نہ کرنے پر آرٹیکل90 کے تحت وزیر اعظم اور کابینہ عدالتی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے ہیں اور وزیر اعظم اور کابینہ نا اہل ہو گی ،
نئی مردم شماری کے مطابق کراچی اور حیدر آباد کی آبادی کا فرق 29لاکھ رہ گیا ہے جس سے اس کی شفافیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،اس سے کراچی میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں کم ہو جائیں گی ،ہم کراچی کے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے وزیر بک بھی جائیں لیکن ہم آپ کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے،لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن مسلم لیگ (ن) فنڈنگ کے معاملات کو چھپانا چارہا ہے اوریہ اس لئے سامنے نہیں لانا چارہا ہے کہ اسے انٹر نیشنل ٹیررسٹ آرگنائزیشن سے حصہ ملا ہے اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے ، الیکشن کمیشن کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی فنڈنگ کے معاملات سامنے رکھنے چاہیے ۔جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست کی پیروی کے لئے لاہور ہائیکورٹ آمد کے موقع پر پارٹی کی مرکزی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور دیگر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ نہ دئیے جانے کی مذمت کرتے ہیں ، ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ڈویژن بنچ نے جب توشہ خانہ کے اوپر حکم امتناعی نہیں دیا تو اس کے بعد ضروری تھا کہ ریکارڈ سامنے لایا جاتا لیکن یہ ریکارڈ اس لئے سامنے نہیں لایا جارہا اس کی ایک وجہ ہے ، مریم نواز کے انٹر ویو میں سب سامنے آگیا ہے کہ کیسے شریف اور زرداری فیملیوںنے توشہ خانہ سے آٹھ آٹھ ، دس دس کروڑ کی گاڑیاں مفت لے لیں، اب تو ان بلٹ پروف گاڑیوں کی فی کس قیمت پچیس سے تیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہیں ،
خواجہ آصف نے گھڑیاں لی ہیں باقی وزراء نے تحائف لئے ہیں لیکن اس کا ریکارڈ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جارہا ،عمران خان کی ظاہر شدہ گھڑی پر کریمینل کیس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بھی اس کا نوٹس نہیں لے رہا ، ہم الیکشن سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی فنڈنگ کے معاملات کہاں گئے ؟،
پیپلز پارٹی نے تو لکھا ہے ہمارے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے، انہیں صرف تحریکا نصاف کی فنڈنگ سے مسئلہ ہے ،مسلم لیگ (ن) نے ایک ارب روپے کے لگ بھگ میڈیا مہم پر خرچ کیا وہ پیسہ کہاں سے آیا ۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے تو الزام عائد کیاتھا کہا کہ یہ فنڈ انہیں سامہ بن لادن نے دئیے تھے جس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے انٹر نیشنل ٹیررسٹ آرگنائزیشن سے یہ فنڈنگ لی ۔
یہ لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن مسلم لیگ (ن) فنڈنگ کے معاملات کو چھپانا چارہا ہے اوریہ اس لئے سامنے نہیں لانا چارہا ہے کہ اسے انٹر نیشنل ٹیررسٹ آرگنائزیشن سے حصہ ملا ہے اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے ۔، الیکشن کمیشن کو دونوں کی فنڈنگ کے معاملات سامنے رکھنے چاہیے ۔فواد چوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم کے مطالبے پر جو مردم شماری ہو رہی ہے اس کے مطابق
کراچی اور حیدر آباد کی آبادی کا فرق 29لاکھ رہ گیا ہے ،اس مردم شماری پرپینتالیس ارب روپے خرچ کیا گیا ہے کراچی اور حیدر آباد کی مردم شماری کے نتائج سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنی شفاف ہے ، ایم کیو ایم کی لیڈر شپ کاکراچی کے لوگوں کو احتساب کرنا چاہیے ،ان کے پانچ ،چھ وزیروں نے خود کو پیپلز پارٹی کے آگے بیچا ہے اورکراچی کے عوام کے حقوق کو پامال کیا ہے ۔
2017ء کی مردم شماری کے بعد اب کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں 20لاکھ آبادی کم ہو گئی ہے ، اگر اس مردم شمار ی پر گئے تو اس سے کراچی کی قومی اسمبلی کی دو نشستیں کم ہو جائیں ۔ تحریک انصاف اس کی شدید مذمت کرتی ہے اور ہم کراچی کے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے،ایم کیو ایم کے پانچ چھ وزیر بک بھی جائیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،
سندھ تحریک انصاف کا ہے اور وفاقی پارٹی کی حیثیت سے ہم تمام اکائیوں اور تمام شہروں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔فواد چوہدری نے بتایا کہ ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف ہماری درخواست کو باضابطہ سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے اور اس میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو سوموار کے روز سے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کیلئے کہہ دیا گیا ہے ۔ ہم نے اس کو تین نکات پر چیلنج کیا ہے
جس میں یہ کہ تحریک انصاف کے لوگوں پر درج ایف آئی آر میں جو دفعات لگائی گئی ہیں یہ سپریم کورٹ کے سات ممبر بنچ کے فیصلے کے منافی ہے ،عمران خان اور کارکنوں پر انسداد دہشتگردی کا کیس نہیں بنتا ،دوسرا اس جے آئی ٹی کو غیر آئینی طور پر بنایا گیا ہے ،اس کے ساتھ ہم نے زمان پارک کے آپریشن پر قانونی ہونے پر سوال اٹھایا ہے ، سوموار کے روز سے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی۔
انہوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر کہا کہ عدالتوں کا ایک پراسس ہوتا ہے جسے مینٹین رکھنا ضروری ہے ، اس فیصلے پر ہمارے تحفظات ہیں ، ہمارے قاسم سوری کی رولنگ پر عدالتی فیصلے پر بھی تحفظات تھے لیکن ہم فیصلے مانے ہیں ،ایک ایسے ملک میں جہاں پر آئین ہو ریاست آئین کے ماتحت ہو ہم عدالت کے حکم کو نہیں مانتے تو نظام نہیں چل سکتا، ہم (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی تو نہیں کہ ہم سپریم کورٹ اور آئین کو نہیں مانتے ،
جو ہمارا ہے وہ بھی ہمارا ہے جو آپ کا وہ بھی ہمارا ہے ،ہم ان دونوں جماعتوں کے برعکس رولز کو پراسس کریں گے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے عدالت کا جو پچھلا حکم ہے اس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت فنڈز جاری کرے ، فنڈز جاری نہ کرنے پر آرٹیکل90 کے تحت وزیر اعظم اور کابینہ عدالتی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے ہیں اور وزیر اعظم اور کابینہ نا اہل ہو گی ، دوسرا حکم آئی جی اور چیف سیکرٹری کے لئے تھا کہ وہ سکیورٹی پلان دیں اس کا پتہ نہیں انہوں نے پلان دیا ہے یا نہیں دیا ، اگر انہوں نے پلان نہیں دیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی ، ایک حکم سیکرٹری دفاع کے لئے تھا اگر انہوں نے اسے مکمل نہیں کیا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ دو ہی صورتیں الیکشن ہوں گے یا وزیر اعظم اور کابینہ گھر جائے گی ، اگر سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عمل نہیں کر اسکتی تو سپریم کورٹ بطور ادارہ ختم ہو جائے گا ۔ انہوںنے کہا کہ ماتحت عدلیہ کے احکامات تو ویسے ہی نہیں مانا جارہا اس لئے ہمارے لوگ ضمانتیں نہیں کرا رہے ، کیونکہ وہ ایک عدالت سے ضمانت کرا کے نکلتے ہیں تو انہیں دوسرے کیس میں پکڑ لیا جاتا ہے ،ماتحت عدلیہ پر تو لوگوںکا اعتماد ہی ختم ہو گیا ہے ۔، اگر سپریم کورٹ کے احکامات پرعمل نہیں ہوگا تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گے اور اپنے حقوق لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اداروں کے درمیان فاصلے فاصلے بڑھے ہیں،چوہدری اعتزاز احسن ، سردار لطیف کھوسہ اورخواجہ طارق رحیم جو سینئر قانون دان ہیں ان کی کال پر وکلاء باہر نکل رہے ہیں، بدھ کے روز بھی سپریم کورٹ کے باہر وکلاء کی بڑی تعداد جمع ہوئی ہے اور جمعرات کے روز مزید بڑا اجتماع ہوگا ، وکلاء کی تحریک شروع ہونی والی ہے جو ایک ہفتے میں شروع ہو جائے گی ۔