ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

عنقریب عمران خان اپنے مرشد پر الزام لگانے والا ہے، یہ کہے گا مجھے تو اپنی بیوی بھی ٹھیک نہیں ملی، خواجہ آصف

datetime 26  دسمبر‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (مانیٹرنگ، این این آئی) خواجہ رفیق شہید فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام خواجہ محمد رفیق شہید کے 50ویں یوم شہادت کے موقع پر ”آئین و جمہور کی حکمرانی، درپیش مشکلات، راہ نجات؟“ کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی جمہوریت کے ساتھ محبت کے

جرم میں لوگوں کو شہید کیا وہ آج کہیں گم ہیں اورکوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہے،ان کو یاد کرنے والا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ عالم اسلام کے دو تین مسئلے ہیں جہاں پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، کشمیر اور فلسطین پر مظالم کی داستان تقریباً ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، لیکن اس سے تقویت ملتی ہے کہ فلسطین کی جدوجہد کوبڑی توجہ ملی ہے اور بین الاقوامی برادری چاہے وہ مسلمان ہیں یا نہیں ہے اس کاز کو سپورٹ کر رہے ہیں اس سے حوصلہ ملتا ہے کہ فلسطینیوں کی منزل قریب آرہی ہے لیکن ساتھ یہ دکھ ہو رہا ہے کہ کشمیریوں کی منزل دور جارہی ہے، کئی سال سے پاکستان کی سیاست کے حالات بگڑے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کے مسئلہ پر کوئی فوکس نہیں رہا، جس طرح کی سیاست پاکستان میں ہے، کشمیر کی سیاست پاکستان کی سیاست سے بد تر ہے کیونک کچھ لوگ اس پر مسلط ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داری پاکستانیوں کی خصوصاً کشمیریوں کی بنتی ہے کہ وہ اس کاز کو آگے لے کر بڑھیں پاکستان،بر صغیر بلکہ انٹر نیشنل پلیٹ فارم پرزبانی جمع خرچ کی بجائے ایک موثر مہم آگے بڑھنی چاہیے جو امید معدوم ہوتی جارہی ہے اس کی لو بڑھکے اور ہمیں اس کا حوصلہ ہو ان کی تگ و دو کو عالمی توجہ حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صحیح بات ہے کہ پاکستان کے حالات ہیں میں حکمران اشرافیہ کے چار، پانچ جزو ہیں جس میں سیاستدان ہیں بیورو کریسی اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور میڈیا اور بڑا کاروبار ہے،

یہ سارے پاکستان کے حالات کے ذمہ دار ہیں، کون زیادہ کون کم ذمہ دار ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ان پر اجتماعی ذمہ داری ہے جو اشرافیہ حکمرانی کر رہی ہے،یہ ہزاروں میں ہیں لاکھوں میں نہیں۔ ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے لغزشوں کی وجہ سے اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی وجہ سے باقی عوام بھی آہستہ آہستہ اخلاق،اقدار سیاست میں پستی کی طرف جارہے ہیں،

اقدار اتنا زیادہ کمپرو مائز ہو گیا ہے کہ کہ پتہ نہیں لگتا کہ کون سی چیز جائز اورکون سی ناجائز ہے۔یہاں پیسے زکوۃ کیلئے لئے گئے اور سیاسی پارٹی کے فنڈ میں ڈال دئیے گئے، کرکٹ کلب کے پیسے زکوۃ کے لئے تھے اسے بھی سیاست میں ڈال دیا گیا، اس میں سے 70لاکھ روپے ایک خاتون کو دیدیا گیا، ساری سیاست اس ایک واقعے سے ڈیفائن ہو جاتی ہے،پھر پانچ چیک دئیے گئے،

یہ شخص اپنے مال پر کچھ نہیں کرتا سارا کام لوگوں کے مال پر کرتا ہے۔ اس وقت جو پی ٹی آئی کے مستعفی ممبران ہیں وہ پچاس کروڑ روپے حکومت سے لے رہے ہیں، سرکاری رہائشیں سرکاری سہولیات پاکستان کی عوام کی جیب سے نکال رہے ہیں،لیڈر بھی جیب کترا اور اس کے حواری بھی جیب کترے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مجھے اس تقریب میں جو تجویز ملی ہے اسے میں اپنی لیڈر شپ کو پہنچاؤں گا،

ان کے استعفے منظور کریں اور ان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنے سکینڈلز ہیں کہ بندہ بھول جاتا ہے کہ ان کے کس سکینڈل پر بات کرے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کی صورت میں جو ماڈل لیبارٹری کے اندر پڑا ہوا تھا آخری وقت تک کوشش کی گئی اس کو لانچ نہ کیا جائے، اور اس وقت کے جو حکمران تھے جو ہم تھے ان کے ساتھ ساتھ مک مکا ہو جائے، شہباز شریف اپنے اصولوں پر کھڑا رہا اپنے بھائی اور پارٹی سے وفاداری نبھائی۔

اللہ تعالیٰ جب سر خرو کرتا ہے تو ان باتوں کا اجر دیتا ہے، ہو سکتا ہے ہم سمجھوتہ کر لیتے لیکن جس عزت اور آبرو کے ساتھ اپ کے سامنے کھڑے ہیں یہ نہ ہوتے، جو لیبارٹری میں پڑا تھا اسے بھی آزما یا نہ جاتا لیکن اچھا ہوا بنانے والوں کو اس کی اوقات پتہ چل گئی اور اس کے منہ سے انہیں اپنی اوقات بھی پتہ چل گئی ہے، یہ روز گالیاں نکال رہا ہے، جس شخص نے کھلایا ہے جس ہاتھ نے اس کو کھلایا اس نے اس ہاتھ کو کاٹا ہے،میں پہلے بھی یہ بات کر چکا ہوں کہ کوئی بعید نہیں کہ اس نے آخری مدعا مرشد پر ڈال دینا ہے کہ میں نے اس سے شادی کیوں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عنقریب عمران خان اپنے مرشد پر الزام لگانے والا ہے، یہ کہے گا مجھے تو اپنی بیوی بھی ٹھیک نہیں ملی، باجوہ صاحب کو توسیع دی غلطی کی، روس گیا غلطی، فلاں بات کی غلطی کی، اس شخص کی وفاداری صرف اقتدار اور دولت کے ساتھ ہے، نہ اس مٹی کے ساتھ نہ ملک کے ساتھ نہ عزیز رشتہ دار نہ پیرو کاروں کے ساتھ کسی کے ساتھ اس کی وفاداری نہیں۔میں نے ایک بار شاہ محمود قریشی کو ایوان میں کہا تھا اس کی جیبیں چیک کریں خالی ہوں گی اگر کوئی پیسہ نکلے تو میں استعفیٰ دیدوں گا یہ مفت بر ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختوانخواہ کی اسمبلی توڑوں وہاں تو کوئی رکاوٹ نہیں وہاں تو کوئی پرویز الٰہی نہیں،

یہ کسی چیز کے ساتھ کمٹڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے اندر جو 75سال کا گند وہ اس ایک شخض میں مجتمع ہے،سیاستدانوں کی کوتاہیاں، ہم سے پہلی نسل کی کوتاہیاں،اسٹیبلشمنٹ کی کوتاہیاں عدلیہ کے جو فیصلے،بیورو کریسی جو ہر آنے والے کے ساتھ وفاداری نبھاتی ہے سب کچھ اکٹھا ہو کر عمران خان کی صورت میں سامنے آتا ہے، پاکستان کے ماضی کے حالات کی تشریح کی تو جائے تو اس شخص کا وجود اس کے لئے کافی ہے اور یہ نچلی سطح تک سرائیت کر گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں یہ کہا گیا کہ سارے سیاستدان بیٹھیں، بھئی آدھے سے زیادہ سیاستدان تو کہیں اور فٹ ہیں تو ہم نے کیا کرنا ہے، پاکستان کی ماضی کی سیاست میں جو جو کھلاڑی رہے ہیں

سب کو بیٹھنا پڑے گا،شخصیات کو نہیں اداروں کو بیٹھنا ہوگا، کیونکہ ادارے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف کے ساتھ عدلیہ نے کیا کیا، بیٹی جیل میں ملنے گئی ہوئی تھی باپ کے سامنے گرفتار کر لیا گیا، ہماری ساری قیادت جیلوں میں ہو آئی ہے، ایسا بندو بست کیا گیا کہ جیل میں برے حالت میں رہیں۔ عمران خان کہتا ہے کہ جنرل باجوہ نیب کے فیصلے کراتا تھا۔ اب ان کا حوصلہ نہیں پڑتا کہ ایک بندہ گرفتار ہوتا ہے تو شور جس طرح پڑتا ہے، جس دن پرویز الٰہی ڈی نوٹیفائی ہوا تو سروسز ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ سے ایک شخص بھاگ گیا اور جب پرویز الٰہی بحال ہو گیا تو پھر واپس آ گیا۔خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ہم نے بلیک میل ہو کر انتخابات نہیں کرانے،

اسمبلیوں کی پانچ سال مدت ہے، یہ مدت پوری ہو گی تو انتخابات وقت پر ہوں گے، ہم کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے اور میری بھی ذاتی رائے تھی جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اس وقت اس وقت انتخابات کرا لینے چاہئیں تھے، ہم نے مشکل میں پھنسے ملک کو سنبھال کر سیاسی طور پر قیمت ادا کی ہے ،قانون و آئین حق دیتا ہے کہ مقررہ تاریخ پر انتخابات کرائیں تاکہ ہم اپنی ملک کو ایک بار پھر درست میں گامزن کر کے اپنی سیاست کو ریکوری کر سکیں۔ اس کا آہستہ آہستہ چہرہ بھی سامنے آرہا ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر علوی نے کہا ہے، اسٹیبلشمنٹ کا2018سے پہلے سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔جوٹرانزیکشن 2013اور2018ء میں ہونے والی تھی

اگر ہم اس پر چلتے تو نہ پانامہ رہنا تھا نہ نیب کے کیس بننے تھے نہ عدلیہ نے ہمارے خلاف فیصلے دینے تھے، نواز شریف اصول پر ڈٹا رہا، اس نے کہاکہ میں قانون اور قاعدے کے مطابق کام کروں گا، لیکن ہم سمجھوتہ کر سکتے تھے، ہم نے ذاتی طور پر نقصان اتھایا اورجیلوں میں گئے، ہماری خوتین پر مقدمات بنائے گئے، تین سال کا جو بھیانک دور گزرا آج بھی اس کے اثرات سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں، ایک پوری نسل کا مزاج بدل گیا ہے۔ عمران خان کے جو پیرو کار ہیں ان پر کوئی اثر نہیں۔جو اس کے جلسوں میں ناچتا ہے گاتا ہے عجیب عجیب بیانات دیتا ہے ان کیلئے جو مرضی کر لیں ان پر فی الحال کوئی اثر نہیں ہوگالیکن آنے والے وقت میں ضرور ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف کو صرف بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا اس کے تو کئی ہزار گنا بڑے جرائم سامنے آ چکے ہیں لیکن رسی دراز ہوئی ہے جب اللہ کی پکڑآتی ہے تو رسیاں دراز نہیں ہوتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…