کابل(این این آئی )طالبان نے افغانستان کو اقتصادی بحران اور انسانی تباہی سے بچانے کے لیے اقوام متحدہ سے ایک ڈونر کانفرنس منعقد کرنے کی اپیل کردی۔ طالبان حکمراں ماسکو میں دس علاقائی طاقتوں کی طرف سے اس اپیل کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ماسکو میں روس کی میزبانی میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں روس، چین، پاکستان، بھارت،
ایران، قزاکستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغزستان نے طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ سے کی گئی اس اپیل کی حمایت کی کہ افغانستان کی تعمیر نو میں مدد کے لیے حتی الامکان جلد از جلد ایک ڈونر کانفرنس منعقد کی جائے۔شرکا ممالک نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنس کے انعقاد میں بہر صورت اس بات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے کہ افغانستان کی تعمیر نو کاسب سے زیادہ بوجھ ان طاقتوں کو برداشت کرنا ہوگا جن کی فوجیں گزشتہ 20 برسوں سے زیادہ عرصے تک اس ملک میں موجود رہی تھیں۔روس نے کانفرنس میں شریک ملکوں کی طرف سے عالمی برادری سے افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان میں جاری تصادم علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔عبدالسلام حنفی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان اب مستحکم ہے اور دوسرے ممالک کو افغان سرزمین سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ امارات اسلامی یہ یقینی بنائے گی کہ کوئی خطرہ نہ ہو۔نائب وزیر اعظم نے کہا افغانستان کو تنہا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر نئی حکومت کو تسلیم اور سپورٹ نا کیا گیا تو قدرتی طور پر سکیورٹی میں خلل ڈالنے والے مزید مضبوط ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا”نئی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی بھی گروپ کو افغانستان کی عوام،
اس کے ہمسائے اور دیگر علاقائی ممالک کی سکیورٹی کو کمزور نہیں کرنے دیں گے۔میڈیارپورٹس کے مطابق روس نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ اپنی حکومت میں تمام نسلی گروپوں اور تمام سیاسی طاقتوں کو شامل کریں۔ کانفرنس میں طالبان سے اعتدال پسند پالیسیوں پر عمل اور افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے دوستانہ پالیسیاں اختیار
کرنے پر زور دیا گیا۔ شرکا نے داخلی پالیسی کے حوالے سے طالبان سے کہا کہ وہ نسلی گرہوں، خواتین اور بچوں کے حقوق کا احترام کریں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے طالبان کے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ایک نئی انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ملک میں
فوجی اور سیاسی صورت حال کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہے اور نظم و نسق چلانے کے لیے ریاستی ڈھانچہ قائم کررہے ہیں۔روسی وزیر خارجہ نے تاہم کہا کہ ہم طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی انتظامیہ ترتیب دیں جس سے نہ صرف تمام نسلی گروپوں بلکہ تمام سیاسی طاقتوں کے مفادات کی عکاسی ہو، تاکہ ملک میں ایک
پائیدار امن کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔لاوروف نے کہا کہ ہم فی الحال طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کررہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے وقت جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کررہا ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا،ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کابل کے لیے انسانی بنیادوں پر موثر مالی امداد فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے وسائل کو حرکت میں لانے کا یہی وقت ہے۔