چمن(مانیٹرنگ ڈیسک)افغانستان کے سرحدی ضلع اسپین بولدک میں افغان طالبان نے چار پاکستانی مہمانوں کو گرفتار کرلیا جن کی رہائی پاکستانی حکام کی جانب سے آٹھ زیر حراست افراد کی رہائی اور ایک بارات کو بارڈر کراس کرانے کے بدلے ہوئی جبکہ طالبان نے بدلے کے باوجود پاکستانیوں کو وارننگ کے بعد چھوڑ دیا ،پاکستانی باشندے واپسی پر روپوش ہوگئے،روزنامہ جنگ میں نورزمان
اچکزئی کی خبر کے مطابق پنجاب صوبے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے اسپین بولدک جانے کے واقعہ کی سیکیورٹی اداروں نے تحقیقات شروع کردی ہے، پاکستانیوں کے زیر استعمال پاکستانی گاڑی مشکوک سمجھ کر لیویز فورس نے قبضے میں لےلیا ہے، پاکستانی واپس آنے کے بعد روپوش ہو گئے۔ لیویزحکام کے مطابق واقعہ دو روز قبل پیش آیا ۔لیویز حکا م کا کہنا ہے کہ دو روز قبل صوبے پنجاب کی ایک معروف بزنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چار افراد شکیل اعوان، چوہدری محمد اشرف، مسعودخان اور محمداصغر کو ایک پاکستانی شہری سرحد پار افغانستان نامعلوم مقاصد کےلئے لیکر گیا تھا، حکام کے مطابق نان لوکل پاکستانی شہری چمن میں باب دوستی کیساتھ غیرروایتی راستے تصدق پوسٹ کےعلاقے سے افغانستان میں داخل ہوئے جہاں ان پاکستانیوں کی سیکورٹی اہلکاروں نے باقاعدہ انٹری بھی کی ہے تاہم طالبان نے ان کی اسپین بولدک میں سرگرمیاں مشکوک سمجھ کر حراست میں لیا جس کی اطلاع اگلے روز پاکستانی حکام کو ملی تاہم بعد میں قبائلی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے چار پاکستانیوں کورہائی کے بدلے طالبان کے
شرائط ماننا پڑ گئیں، حکام کے مطابق پاکستانیوں کی رہائی پاکستانی فورسز کے زیر حراست آٹھ افراد کی رہائی اور ایک شادی کی بارات کو سرحد پار چھوڑے جانے کے بدلے کے بعد عمل میں آئی ،اس کے باوجود طالبان نے وارننگ کے بعدانہیں چھوڑ ا تاہم پاکستانیوں کی واپسی کا بھی سیکورٹی اہلکاروں کو علم نہ ہوسکا حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کو لینے والی گاڑی کی سرحدی علاقے میں
مشکوک سرگرمیاں دیکھ کر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اسےپکڑنے کی کوشش کی جس پر ڈرائیور گاڑی بگھا کر لے گیا اور بائی پاس کے علاقے میں گاڑی ایک ویران مقام پر چھوڑ پر فرار ہوگیا بعد میں لیویز فورس نے گاڑی قبضے میں لے لی، حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی واپس آنے کے بعد سے روپوش ہو چکے ہیں جبکہ ان کے سرحدی مہمان اور چار پاکستانیوں کا بڑے پیمانے پر کھوج لگایا جارہا ہے جبکہ مختلف سیکیورٹی اداروں نے بھی واقعہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات شروع کر دی ہے۔