کابل(آن لائن) طالبان کی طرف سے انسانی حقوق کی پاسداری کی یقین دہانیوں اور اعتدال پسند حکومت کے وعدے کے بعد نجی یونیورسٹیوں نے تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔یونیورسٹیوں نے کلاسز کا آغاز کردیا ہے تاہم مرد اور خواتین کے درمیان پردے لگائے گئے ہیں۔تعلیمی اتھارٹی کی جانب سے ہفتے کے روز جاری کردہ
ایک دستاویزمیں حکم دیا گیا تھا کہ خواتین عبایا اور نقاب پہنیں، کلاسز میں مرد اور خواتین کے الگ الگ بیٹھنے کا اہتمام کیا جائے یا درمیان میں پردہ لگا جائے۔تعلیمی اداروں کو یہ ہدایات بھی کی گئی تھیں کہ طالبات کو صرف خواتین پڑھائیں گی اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو بڑی عمر کے اساتذہ لیکچر لیں گے۔یونیورسٹیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ طالبات کی سہولیات کیلئے خواتین اساتذہ بھرتی کریں۔ یونیورسٹیوں میں مردوں اور عورتوں کیلئے داخلی اور خارجی راستے بھی الگ الگ ہونے چاہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی الگ بٹھایا جائے گا۔یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام چھپانے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک مشکل منصوبہ ہے۔پروفیسر نے کہا ہمارے پاس لڑکیوں کو الگ کرنے کے لئے کافی خواتین انسٹرکٹر یا کلاسیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ لڑکیوں کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت دے رہے ہیں ایک بڑا مثبت قدم ہے۔گزشتہ ماہ اعلیٰ تعلیم کے قائم مقام وزیر عبدالباقی حقانی کے حوالے سے اے ایف پی نے کہا تھا کہ طالبان”ایک معقول اور اسلامی نصاب تشکیل دینا چاہتیہیں۔ جو ہماری اسلامی، قومی اور تاریخی اقدار کے مطابق اوردوسرے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہو“۔