اسلام آباد(آن لائن)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ پی ٹی وی ،ریڈیو کی بلند و بانگ عمارتیں قوم کے پیسہ سے بنائی گئی ہیں اور یہ ادارے جب قوم کو فائدہ نہ دیں تو پھر انکے رکھنے کا کیا فائدہ ہے ،پرائیویٹ چینل دو کمروں پر ہو کر بھی پوری دنیامیں تھرتھلی مچائی ہوتی ہے ،یہاں اربوں روپے کی آراضی پر عمارتیں قائم کر کے ملازمین کو مفت میں تنخواہیں دی جا رہی ہیں،
ایم ڈی پی ٹی وی نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ دس سال سے ادارہ میں 2500ملازمین زیادہ رکھے گئے ہیں اور انکی تنخوائیں دی جا رہی ہیں،2008سے مستقل ملازمتیں ختم کر دی گئیں اور اب کنٹریکٹ پر بھرتی کی جاتی ہے ،کمیٹی نے کہا کہ 60نئے پروڈیوسر رکھنے کی وجوہات بتائی جائیں ،دوسری جانب پی ٹی وی کی جانب سے کمیٹی کو مکمل معلومات نہ دینے پر ارکان نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگلے اجلاس میں تمام تر ملازمین،آراضی،اور انکی تنخوائیںاور منافع و خسارہ سمیت مکمل رپورٹ دی جائے ،گزشتہ روز سینٹر فیصل جاوید کی سربراہی میں کمیٹی کا اجلاس ہوا ،جس میں عون عباس ،عرفان صدیقی،مصطفی نواز کھوکھر،و سیکرٹری اطلاعات،ایم ڈی پی ٹی وی و دیگر حکام نے شرکت کی ،اس موقع پر چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید نے کہا کہ کمیٹی سب کی معاونت کے لیے بنائی گئی ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ سرکاری ادارے کسی کی جاگیر نہیں بلکہ یہ قوم کے ٹیکس سے بنائے گئے ہیں اور قومی ادارے جب کارگردگی نہیں دکھائیں گے تو انکو رکھنے کا کیا فائدہ ہے ،پرائیویٹ چینل دو کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں اور انہو ںنے پوری دنیا میں ہلچل برپا کی ہوتی ہے اور یہاں ہزاروں کنال پر محل بنائے گئے ہیں اور ایک کی جگہ سینکڑوں ملازمین رکھے گئے ہیں،کام نہیں ہوتا تو بتا دیا جائے اور ان عمارتوں کو سرکار کی تحویل میں دیا جائے ہو سکتا ہے کہ یہاں کوئی یونیورسٹی یا شاپنگ مال بنا دیا جائے
تاکہ کوئی قومی مفاد تو ہو،ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ ادارہ کو فعال بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور مزید بھی محنت کررہے ہیں ،زمین کا ریکارڈ اگلے اجلاس میں پیش کر دیں گے ،مزید بتایا کہ دو ارب سے زائد کی مالیت کی زمین اسلام آباد ،یوں پشاور 786ملین،کراچی4.6بلین روپے کی ہیں ،اس موقع پر ارکان کمیٹیز نے
کہا کہ اپ کا تخمینہ پرانا اور غلط ہے ،موجودہ قیمت بہت زیادہ ہے ،سینٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ جو کمیٹی پوچھتی ہے وہ بتایا نہیں جاتا،اپ سے نئے پروڈیوسر بارے پوچھا تھا کہ ساٹھ نئے رکھے گئے ہیںتو پہلے کتنے تھے ،ایم ڈی پی ٹی وی نے جواب دیا کہ سب کی تفصیل فراہم کر دی جائے گی،لیکن یہ بات ضرور کہوں گا کہ ان تین
سالوں میں ساٹھ افراد ہی بھرتی کیے ہیں اور گزشتہ دس سالوں میں 2500ملازمین اضافی اور غیر ضروری رکھے گئے اور انکی وجہ سے ادارہ تنزلی کا شکار ہوا،تنخوائیں بڑھانے سے متعلق سوال پر جواب دیا گیا کہ گزشتہ تین سال سے کوئی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی اور اب کی بارنیا بورڈ تشکیل دیا گیا ہے تو انہوں نے 10فیصد بڑھانے کی منظوری دی ہے ،چیئرمین کمیٹی کے استفسار پر ایم ڈی نے بتایا کہ بورڈ میں کل سات ممبران ہوتے ہیں
اور انہیں سیکرٹری اطلاعات کی زیر نگرانی قائم کیا گیا ہے ،ممبران میں ایم ڈی پی ٹی وی،ڈی جی ریڈیو،ڈی آئی ایس پی آر،ایڈیشنل سیکرٹری وزارت اطلاعات،وغیرہ،یہاں چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریاست کا کام نشریاتی ادارے چلانا نہیں بلکہ انکو ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے ،ریلوے ،پی آئی اے وغیرہ کسی کو اور کہیں بھی حکومت نہیں چلاتی،تاہم کمیٹی نے قرار دیا کہ اگلے اجلاس میں پی ٹی وی ،ریڈیو سے متعلق بریف کیا جائے کہ انکے پاس کل زمین کتنی ہے اور ملازمین،بجٹ ،اخراجات اور منافع تاکہ اس پر معاونت کی جا سکے ۔