کراچی(این این آئی) گزشتہ تین ماہ کے دوران جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچنے والے کووڈ سے متاثرہ 40 بین الاقوامی مسافر طبی تجاویز کیخلاف فرار ہو گئے یا چھوڑ دیئے گئے یا سرکاری قرنطینہ سہولیات سے رہا ہوگئے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق متاثرہ افراد کے ایک بھی کیس کی باضابطہ طور پر پیروی اور تفتیش نہیں کی گئی حالانکہ اس حقیقت کے
باوجود کہ وہ بعد میں ڈیلٹا قسم کے کیسز پائے گئے۔ذرائع کے مطابق کورونا مثبت مسافروں نے تین ماہ کے دوران اپنی مرضی سے قرنطینہ سہولیات چھوڑیں اور تازہ ترین کیس میں ایک خاتون مسافر جو عراق سے آئی تھیں اپنے بیٹے کے ساتھ کورنگی نمبر 5 کے سندھ گورنمنٹ ہسپتال کے کووڈ وارڈ سے بھاگ گئیں۔صحت حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبائی حکومت جو کہ اب خطرناک ڈیلٹا قسم کی وجہ سے صحت کے بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اس صورت حال سے بچ سکتی تھی اگر اس نے ابتدائی دنوں میں مئی اور جون کے درمیان نظام میں خرابیوں کا نوٹس لیا ہوتا جب شہر میں مسافروں کے درمیان اس خطرناک قسم کے پہلے چند کیسز رپورٹ ہوے تھے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی قسم کا پہلا کیس بھی بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں پایا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق مئی سے اب تک کراچی پہنچنے والے ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی مسافروں کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیا گیا ہے جن میں سے 250 سے
زائد افراد میں کورونا وائرس مثبت پایا گیا۔ایک اور صحت عہدیدار نے کہا کہ ‘ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ بیشتر افراد بھارتی ڈیلٹا قسم سے متاثر تھے، کم از کم 14 کیسز ایسے تھے جن میں ہمیں اپنے اعلیٰ عہدیداروں کے حکم پر سرکاری طور پر مسافروں کو رہا کرنا پڑا جبکہ طبی مشورے کے خلاف کافی زیادہ تعداد میں قرنطینہ سہولیات چھوڑ کر چلے گئے۔
حکام کے مطابق تمام بین الاقوامی مسافر کوویڈ 19 کے لیے ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ سے گزرتے ہیں جس میں صرف 10 منٹ لگتے ہیں، اگر نتیجہ مثبت آجاتا ہے تو مسافروں کو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قرنطینہ کی سہولت میں منتقل کیا جاتا ہے اور اس دوران ایئرپورٹ پر لیا گیا اس کا نمونہ پی سی آر کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ایک سینئر ڈاکٹر نے وضاحت
کرتے ہوئے کہا ‘ہم نے دیکھا ہے کہ پی سی آر ٹیسٹ مثبت آر اے ٹی والے کیسز میں 100 فیصد مثبت آتا ہے جبکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ چند متاثرہ افراد کا آر اے ٹی کے ذریعے پتہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ جینومک ٹیسٹ کے نتیجے میں مسافر کو جس مخصوص قسم کا سامنا ہوتا ہے اس کا پتہ لگایا جاتا ہے، اس میں 5 سے 6
روز لگتے ہیں جس دوران کسی بھی شخص کو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرت ہوئے سرکاری سہولت سے نکل سکے۔ذرائع نے کہا کہ لیکن اس کے باوجود حکومت اگر چاہتی تو ان کیسز کی پیروی کر سکتی تھی کیونکہ مسافروں کی مکمل تفصیلات محکمے کے پاس دستیاب تھیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کو بارہا
اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کیا گیا لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔اس معاملے پر رائے کے لیے صحت کا کوئی عہدیدار دستیاب نہیں ہوسکا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نمائندے ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے کہا ہے کہ یہ مختلف قسم کا کورونا وائرس خود گھر میں پیدا نہیں ہوا ہے، یہ ایک ریاستی ناکامی ہے کہ ملک میں آنے والے متاثرہ افراد گھومنے
پھرنے کیلئے آزاد ہیں، مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کراچی میں یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ اس وقت ہسپتالوں میں نان کووڈ مریضوں کے لیے بستر بھی موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کس طرح کورونا وائرس کے برطانوی قسم اور اب بھارتی قسم ملک میں پھیلی، اس افسوسناک کہانی نے ملک کے داخلی مقامات کی حفاظت میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی سطح پر بار بار ناکامیوں کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے سوال کیا کہ اگر ہم سے چھوٹے ممالک وبائی مرض کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟۔