اسلام آباد (این این آئی) 5 منٹ کی موبائل فون کالز پر 75 پیسہ اضافی ٹیکس کا معاملہ،ٹیلی کام انڈسٹری نے موبائل فون کالز پر مجوزہ ٹیکس ناقابل عمل قرار دیدیا۔ذرائع ٹیلی کام انڈسٹری کے مطابق یہ اقدام بنڈل آفر کی سہولت والے 98فیصد پری پیڈ صارفین کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے،نئے ٹیکس کا اطلاق آپریٹرز کی جانب سے عوام
کی سہولت کیلئے فراہم کیے جانے والے بنڈلز کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ ٹیکس صارفین کو پانچ منٹ سے پہلے کال کاٹ کر دوبارہ ملا نے کی جانب راغب کرسکتا ہے جس سے وہ اضافی ٹیکس سے بچ جائیں گے اورحکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ذرائع ٹیلی کام انڈسٹری کے مطابق اضافی ٹیکس صرف ٹیلی کام آپریٹرز کے لیے پیچیدگی اورعوام کے لیے تکلیف کا باعث بنے گا۔دوسری جانب خزانہ ڈویژن کے 2273 ارب 85 کروڑ روپے سے زائد کے 15 مطالبات زر منظور کرتے ہوئے اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک مسترد کر دیں جبکہ اپوزیشن اراکین نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نمائندے روبوٹس کی طرح ہیں،حکومت کے دیئے گئے تمام نمبرز پر ماہرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں،عوام کی بجٹ سے مکمل لا علمی ہے،پاکستان کا ٹیکس نظام منصفانہ اور پراگریسیو ہونا چاہیے،بڑے بڑے سرمایہ کار قرض لیتے ہیں غریب کیلئے کوئی قرض نہیں جبکہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو ٹیکس نہیں دیگا جیل جائیگا،کویڈ جیسی مشکلات کے باوجود پاکستان کی شرح نمو 4 فیصد رہی،آئندہ سال 5 فیصد تک لے جائیں گے،ٹیکسیشن 4700 ارب روپے کا ہدف پورا کریں گے اور آئندہ سال 5800ارب پر لے کر
جائیں گے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس وقت بھی سرپلس ہے،ملک میں ڈالر لانے کی صلاحیت موجود ہے،جون 2022 سے پہلے دس کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی جائیگی۔ ہفتہ کو قومی اسمبلی میں خزانہ ڈویژن کے 2273 ارب 85 کروڑ روپے سے زائد کے 15 مطالبات زر منظور کرلئے گئے تاہم خزانہ ڈویژن کے مطالبات زر پر اپوزیشن کی
جانب سے کٹوتی کی 257 سے زائد تحاریک مسترد کر دی گئیں۔ اجلاس کے دور ان گرانٹ، سبسیڈیز کی مد میں 1159 ارب روپے کا مطالبہ زر،تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی مد میں 160 ارب روپے کا مطالبہ زر منظور کیا گیا۔ کٹوتی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے نفیسہ شاہ نے کہاکہ بجٹ ایک فگر فجنگ سے زیادہ کچھ
نہیں،حکومت کے دیئے گئے تمام نمبرز پر ماہرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں،بجٹ میکنگ پراسیس سے پاکستان کے عوام اور جمہوری ادارے کتنے دور ہیں،بجٹ میں اس ہاؤس سے زیادہ بابوں کا کردار زیادہ ہے، ہمسایہ ملک میں بجٹ میکنگ میں پارلیمنٹ کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتا ہے،پاکستان میں پارلیمانی نمائندے روبوٹس کی طرح
ہیں،عوام کی بجٹ سے مکمل لا علمی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا ٹیکس نظام منصفانہ اور پراگریسیو ہونا چاہیے،ہمارا ٹیکس کا نظام امیروں کو فائدہ دیتا ہے،چالیس کھرب کی ایمنسٹی ہر سال دی جاتی ہے،غریبوں پر ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگائے جاتے ہیں،اس بجٹ کے ذریعے سیاسی حلقوں کو خوش کیا جا رہا ہے،بڑے بڑے سرمایہ کار قرض لیتے ہیں غریب کیلئے کوئی قرض نہیں۔