نیویارک (این این آئی)رواں برس جولائی میں افریقی ملک بوٹسوانا کے شمالی حصے میں سینکڑوں ہاتھی مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ ماحولیاتی سائنسدانوں نے اس واقعے کو زمین کے ماحول کے لیے آفت قرار دیا تھا۔شمالی بوٹسوانا میں ہاتھیوں کی ہلاکت کو زہر خورانی کا افسوس ناک نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ ان ہاتھیوں نے وہ پانی پیا تھا جہاں زیر آب زہریلی کائی اْگی ہوئی تھی۔
اس کائی کا زہر پانی میں شامل ہو چکا تھا۔ یہ سبزی مائی نیلی کائی پانی کے نیچے قدرتی طور پر اْگتی ہے اور اس کا زہریلا مواد پانی میں شامل ہونے کی وجہ موسمیاتی حدت قرار دی گئی ہے۔ سائنسدان بعض جانوروں کی ناپید ہوتی نسلوں کو بچانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔چند برس قبل کیلیفورنیا کے گدھ اور قطبی بلے کی نسلوں کے ناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ پھر ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ ان جانوروں کو ناپید ہونے سے بچایا جائے۔ ان کو محفوظ مقامات پر رکھ کر پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایسی افزائش دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں معمول خیال کی جاتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ناپید ہوتے جانوروں کو ان کے اپنے جنگلاتی ماحول ہی میں پروان چڑھانا ممکن ہوتا تو اس طرح جنگلات اور جانوروں کو تحفظ مل سکتا۔ڈولی پہلی کلون بھیڑ تھی۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کا جنم سن انیس چھیانوے میں ممکن ہوا تھا۔ لیبارٹری میں خلیوں کے استعمال سے ایک ہم شکل بھیڑ کی تخلیق کی گئی تھی۔ یہ کوئی پہلا تجربہ نہیں تھا۔ انسان ایسے تجربات سن انیس سو اٹھائیس اور انیس سو باون سے جاری رکھے ہوئے تھے۔ پہلی مرتبہ ایک مینڈک کا بچہ عنی غوکچ1952 میں کامیابی سے تخلیق کیا گیا تھا۔ غوکچہ یا ٹیڈپول بعض بری و بحری جانوروں کا ابتدائی روپ ہوتا ہے۔ جیسے کہ مینڈک کا انڈے سے جنم لینے کے بعد کی پہلی
صورت کو ٹیڈ پول کہا جاتا ہے۔ اس وقت بھی ناپید ہوتے جانوروں کے خلیوں سے نسل کے بچاؤ کا سلسلہ جاری ہے۔چین: چوہوں اور کوبرا سانپوں کا کاروبار کرنے والے پریشانـاقوام متحدہ کے پروگرام برائے ایکو سسٹم کی بحالی کی ایک دہائی کا آغاز سن دو ہزار اکیس سے ہو رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایک ٹریلین ڈالر کے خرچ سے دنیا کے قریب ایک سو پندرہ ملکوں میں زمین کی بحالی کی
جائے گی۔ اگر یہ پروگرام کامیاب ہو جاتا ہے تو چین جتنے وسیع رقبے کا سابقہ ماحولیاتی نظام یا ایکو سسٹم ایک مرتبہ پھر سے بحال ہو جائے گا۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بحال شدہ رقبہ پھر سے کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے اور اس طرح نشو و نما کے ماحول کا تحفظ بھی ہو سکے۔پینگولین جانور کی دنیا بھر میں تجارت جاری ہے اور اس کا ناپید ہونا نظر آ رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت پینگولین کی تمام آٹھ قسموں کا شکار اور تجارت غیر قانونی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ
جانوروں کی غیر قانونی تجارت ماحول پسندوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ تمام تادیبی کارروائیوں کے باوجود اسمگلروں پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ بھارت سے اچھی خبر یہ ہے کہ ناپید ہوتے ٹائیگر کی آبادی کو بڑھانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔محققین سمندری ماحولیاتی نظام کے تحفظ کی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بحیرہ احمر کی ڈھائی ہزار کلومیٹر پر پھیلی مونگے کی
چٹانوں کو یونیسکو کے سمندری عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ بحیرہ احمر میں واقع یہ دنیا کی سب سے طویل مونگے کی چٹانیں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ مونگے کی چٹانوں پر ایک چوتھائی سمندری حیات کا انحصار ہے۔ ریسرچرز کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک موسم شدید گرم ہونے سے مونگے کی ستر سے اسی فیصد چٹانیں تباہی کا شکار ہو جائیں گی۔