بیجنگ(این این آئی)ہواوے کو امریکی پابندیوں کے نتیجے میں گوگل سروسز جیسے پلے اسٹور سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ چینی کمپنی اس کے جواب میں اب تک کا اہم ترین اقدام کرنے والی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ہواوے، شیائومی ، اوپو اور ویوو جیسی بڑی اسمارٹ فونز بنانے والی کمپنیاں اکٹھے ہوکر ایک پلیٹ فارم پر کام کررہی ہیں جو چین سے
باہر موجود ڈویلپرز کو اپنی ایپس بیک وقت ان کمپنیوں کے ایپ اسٹورز میں اپ لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرے گا۔یہ کمپنیاں گلوبل ڈویلپر سروس الائنس (جی ڈی ایس اے) کے زیرتحت اکٹھی ہوئی ہیں اور یہ اقدام گوگل پلے اسٹور کی بین الاقوامی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔چین میں گوگل پلے اسٹور پر پابندی عائد ہے اور وہاں کے اینڈرائیڈ صارفین مختلف ایپ اسٹورز سے ایپس کو ڈائون لوڈ کرتے ہیں جن میں سے بیشتر مختلف کمپنیوں جیسے ہواوے اور اوپو سنبھالتی ہیں، مگر چین سے باہر گوگل پلے اسٹور کی بالادستی قائم ہے، جو ڈویلپرز کو اپنے سافٹ وئیر اپ لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، اس اجارہ داری کے نتیجے میں تھرڈ پارٹی ایپ اسٹورز کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اور اب اسے جی ڈی ایس اے کے پلیٹ فارم سے چیلنج کیا جارہا ہے،جی ڈی ایس اے کی پروٹوٹائپ ویب سائٹ میں بتایا گیا کہ اس کی سروسز 9 ممالک اور خطوں بشمول بھارت، انڈونیشیا، روس اور ملائیشیا میں متعارف کرائے جانے کا منصوبہ ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ چینی کمپنیاں مختلف خطوں میں بہت مضبوط ہیں جیسے شیائومی بھارت میں یا ہواوے یورپ میں، اور گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران ان کمپنیوں نے دنیا بھر میں 40 فیصد اسمارٹ فونز فروخت کیے تھے۔گوگل پلے اسٹور کی عالمی سطح پر بالادستی ہواوے کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ ہے جو گزشتہ سال امریکی پابندیوں کے نتیجے میں گوگل ایپس اور سروسز بشمول پلے اسٹور کے لائسنس سے محروم ہوگئی۔اس مسئلے کی وجہ سے ہواوے نے اپنے فلیگ شپ فون میٹ 30 کو عالمی سطح پر فروخت کے لیے پش نہ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اس نے اپنے آپریٹنگ سسٹم ہارمونی او ایس پر کام کرنے کا اعلان بھی کیا اور گوگل سروسز کے متبادل کے طور پر ہواوے موبائل سروسز کے قیام کے لیے ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔پلے اسٹور گوگل کی آمدنی کے ذرائع میں بہت اہمیت رکھتا ہے جس نے گزشتہ سال دنیا بھر میں 8.8 ارب ڈالرز کما کر دیئے۔چینی کمپنیوں کا یہ نیا پلیٹ فارم مارچ میں متعارف کرائے جانے کا منصوبہ ہے مگر چین میں کورونا وائرس کے پھیلا? کے باعث اس میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔