اسلام آباد(ویب ڈیسک) ستاروں کے درمیان واقع خلا سے ایک سیارچہ نظامِ شمسی میں داخل ہوا ہے جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اب تک معلوم اجرامِ فلکی میں سے سب سے زیادہ لمبوترا ہے۔ اس سیارچے کو 19 اکتوبر کو دریافت کیا گیا تھا اور اس کی رفتار اور زاویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظامِ شمسی سے باہر کسی
اور ستارے کے نظام سے آیا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ دوبارہ خلا کی پہنائیوں میں کھو جائے، ماہرینِ فلکیات ‘اومُوامُوا’ کہلانے والے اس سیارچے کے مشاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ بھی پڑھیے’دوسرے نظام شمسی سے آنے والا دمدار ستارہ نہیں سیارچہ تھا‘اب تک کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ چوڑائی کے مقابلے پر اس کی لمبائی کم از کم دس گنا زیادہ ہے۔ یہ شرح نظامِ شمسی کے اب تک دریافت شدہ کسی بھی جسم کے مقابلے پر زیادہ ہے۔چلی میں واقع دوربین سے اس کا مشاہدہ کرنے والی امریکی ماہرِ فلکیات کیرن میچ اور ان کے ساتھیوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس سیارچے کی لمبائی 400 میٹر ہے اور تیزی سے گھوم رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی چمک میں تیزی سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ چمک میں اسی تبدیلی کی وجہ سے اومواموا کی عجیب و غریب شکل کا اندازہ لگانے میں مدد ملی۔ ڈاکٹر میچ نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لمبوترا ہے۔۔۔ اس کا رنگ سرخی مائل ہے، اور اس کے اطراف گرد و غبار بالکل نہیں ہے۔’ان خصوصیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اومواموا ٹھوس ہے اور شاید پتھر یا پھر دھاتوں پر مشتمل ہے، اس پر پانی یا برف نہیں ہے، اور اس کی سطح کائناتی شعاعوں کی وجہ سے سرخی مائل ہو گئی ہے۔اومواموا کسی اور نظامِ شمسی میں بنا ہے، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری کہکشاں میں کسی ستارے سے منسلک ہوئے بغیر کروڑوں برس تک
ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا ہو، اور پھر اس نے اتفاق سے نظامِ شمسی کا رخ کر لیا ہو۔امریکی خلائی ادارے ناسا کے ٹامس زوربوکین نے بتایا: ‘ہم عشروں سے نظریات قائم کرتے چلے آئے ہیں کہ ایسے اجسام موجود ہیں۔ اب یہ تاریخ ساز دریافت دوسرے نظام ہائے شمسی کی تشکیل کے بارے میں نئی معلومات فراہم کرے گی۔’