اسلام آباد(ویب ڈیسک) اُدھؤ بھرالی کہتے ہیں ‘میں مسائل کو حل کرنا پسند کرتا ہوں’۔’مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ لوگوں کو قدرے زیادہ سہولت یا کسی حد تک کچھ اور آزادی مل جائے’۔ یہ ہے وہ بات جو ادھؤ بھرالی کو نت نئی ایجادات پر لگائے رکھتی ہے۔ وہ 30 سال پہلے مختلف چیزیں بنا کر بیچنا شروع ہوئے تا کہ خاندانی
قرضہ اتار سکیں اور آج یہی جذبہ ان کی زندگی ہے۔ وہ اب تک لگ بھگ 140 ایجادات کر چکے ہیں جن میں اکثر نے کاروباری کامیابی ہی حاصل نہیں کی بلکہ انھیں عالمی ایوارڈ بھی دلوائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اصل تحریک اس بات سے ملتی ہے کہ لوگوں کی مدد کی جائے۔ زرعی ایجادات نے انھیں پورے انڈیا میں تو مشہور کیا ہی ہے لیکن ان کے نئے تصورات سے معذوریاں دور کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں معذور لوگوں کے لیے حکومتی مدد انتہائی محدود ہےاب یہ ان جیسے لوگوں پر ہے کہ وہ اس کا کوئی حل نکالیں۔ راج رحمان اب 15 سال کے ہیں، وہ پیدائشی بیمار اور ذہنی معذور پیدا ہوئے تھے۔ ان کے لیے بھرالی نے چپکنے والے کپڑے اور ایک چمچے کی مدد سے جو سادہ سا آلہ بنایا ہے وہ ان کی کلائی سے لگ جاتا ہے اور کھانے اور لکھنے کو آسان بنا دیتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے راج کے جوتوں میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر دی ہیں کہ وہ اب زیادہ آسانی سے ادھر اُدھر آ جا سکتے ہیں۔ راج کا کہنا ہے ‘پہلے میں اپنے بارے میں پریشان رہتا تھا لیکن اب کوئی پریشانی نہیں۔ اب مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ سکول جانے کے لیے مجھے ریلوے لائن پار کرنی ہو گی۔ کیوں کہ اب تو میں کسی مشکل کے بغیر چل سکتا ہوں’۔ ‘میں خوش ہوں کہ اب میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں’۔ انوویٹرز سیریز کی دیگر کہانیاں پڑھیے ’برفانی سٹوپا‘ سے پانی کے مسئلے کا
حل؟ نمونیا سے بچاؤ میں مددگار شیمپو کی بوتل کیا یہ ذرے پانی سے زہر نکال سکتے ہیں؟ کیا اس بچی کے پاس کچرے کے مسئلے کا حل ہے؟ نیپال میں ڈاکٹروں کا مددگار سولر سوٹ کیس انسانی اختراع پسندی ادھؤ بھرالی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک ناکارہ آدمی ہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں خود کو ایک اعلیٰ موجد ثابت کرنے میں 18 سال لگ گئے۔ ان کی زیادہ تر ایجادات کم قیمت ہوتی ہیں اور ان میں مقامی اشیا اور خام مال استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کی پُرکفایت ایجادات کے لیے مقامی زبان میں ‘جگاڑ’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے: کسی مسئلے کا غیر روایتی حل نکالنا’۔ کیمرج یونیورسٹی میں جج بزنس سکول کے جےدیپ پربھو نے ‘جگاڑ’ پر پوری کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کو ایجاد کے لیے متحرک کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس لیے کہ اس کے لیے اختراع کے فطری انسانی میلان کے سوا کچھ درکار نہیں ہوتا۔ سارا دارومدار اس پر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اور اپنی کمیونٹی اور اس کے اردگرد کے مسائل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ مسائل جو آپ کو اور آپ جیسوں کے راستوں میں آتے ہیں آپ انھیں کیسے دیکھتے اور پھر درکار وسائل سے ان کا کیا حل نکالتے ہیں’۔ ادھؤ بھرالی کی آمدنی کا ایک ذریعہ اپنی ایجادات کی فروخت اور حکومتی و کاروباری اداروں کے تکنیکی مسائل حل
کرنا بھی ہے۔ لیکن ان کی زیادہ دلچسپی دوسروں کی ایسی مدد میں ہے جس سے وہ اپنی مالی حالت سنوار سکیں۔ انھوں نے کچھ ایسے مراکز بھی بنائے ہیں جہاں لوگ ان کی مشینیں استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مرکز میں مقامی دیہاتوں کی عورتیں ان کی بنائی ہوئی چکی پر چاول پیسنے کے لیے آتی ہیں۔ چاول کے اس آٹے سے پھر وہ مختلف اشیا بناتی اور بیچتی ہیں۔ چور دروازہ نہیں عالمی بنک کے مطابق انڈیا میں 15 سال سے زیادہ کی صرف 27 فیصد عورتیں معاشی کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ مرکز میں آنے والی عورتوں میں سے ایک پوربیتا دتہ کا کہنا ہے ‘دیہاتوں میں ہمارے لیے کوئی نوکری ہی نہیں کہ کچھ کما سکیں’۔ بھرالی کی اس اختراع پسندی سے دیہاتی مردوں کو بھی فائدہ ہوا ہے۔ انھوں نے سیمنٹ کی اینٹیں بنانے کی مشین بنائی ہے۔ یہ مشین اب تک 200 سے زائد بار فروخت ہو چکی ہے۔ ان میں ہر مشین پر پانچ لوگ کام کرتے ہیں اور اس طرح اس مشین سے لگ بھگ ایک ہزار لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ادھؤ بھرالی کا کہنا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کا کوئی چور دروازہ نہیں اور جو ہے ان کی محنت کا پھل ہے کہ ان کی زندگی اب آرام دہ ہے اور وہ اب اس قابل ہیں کہ 25 خاندانوں کی مدد کررہے ہیں۔ بھرالی کی اس کامیابی میں انجینئرنگ کے پس منظر نے بھی بڑی مدد کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایجاد یا اختراع کسی کو پڑھایا یا سکھایا نہیں جا سکتا۔ ‘ہر وہ آدمی جو
ایک مضطرب ذہن رکھتا ہے، جو اپنے آس پاس کی چیزوں سے مطمئن نہیں ہے، ایک موجد ہے۔ اختراع اور ایجاد اندر سے آتی ہے، کوئی بھی کسی کو اختراع پسند یا موجد نہیں بنا سکتا، اسے خود ہی محسوس کرنا ہوتا ہے۔‘ اصل میں تو وہ اپنی توجہ اپنی مشینیں بنانے اور پھر ان کی کاروباری کامیابی پر رکھنا چاہتے ہیں اور یہی
ان کی ساکھ بھی ہے لیکن لوگ ان سے اپنے مسائل کے پیشگی حل کا کام دیتے رہتے ہیں، اس پر بھی ان کا ارادہ سست پڑنے کا نہیں ہے۔ ان کے لیے ایجاد کی خوشی اب تک برقرار ہے۔ ‘مجھے چیلنج کا سامنا کر کے مزا آتا ہے اور کسی بھی کام کو کرنے والا پہلا آدمی بننے کی تو بات ہی اور ہے’۔ اضافی تحقیق اور رپورٹنگ: پریتی گپتا