اسلام آباد(ویب ڈیسک) سیاست کا ذکر کریں تو شاید دو سیاست دانوں کا پارلیمان میں ایک دوسرے سے بحث مباحثے میں مشغول ہونا اور پحچھے سے ان کے ساتھیوں کا حمایت میں آوازیں لگانے کا منظر ذہن میں آئے۔ مگر ہمارے لیے یہ تصور کرنا ذرا مشکل ہوگا کہ اس بات کا چمپینزی سے بھی کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ مگر
حقیقت میں چمپینزی میں بھی طاقت کے حصول اور ایک دوسرے کے ساتھ چال بازی کے ذریعے طاقت حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ چمپینزی ایک انتہائی سیاسی جانور ہے۔ یہ پچاس کے قریب کا گروہ بناتے ہیں جس میں ایک نر مختلف سیاسی چالوں کے ذریعہ اِن کا لیڈر بنتا ہے۔ پروفیسر فرانس ڈی وال کی کتاب چمپینزی پولیٹکس میں نیدرلینڈز کے آرنہم ذو میں چمپینزیوں کے درمیان اشتراک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ صرف جسمانی طور پر طاقتور ہونا کافی نہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ‘آپ کو حمایتی چاہیے ہوتے ہیں جنہیں خوش رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو فن سفارت آنی چاہیے۔’ سیاسی اشتراک قائم کرنا اس سفارت کاری میں دوسرے نر چمپینزیز کے ساتھ اشتراک قائم کرنے ہوتے ہیں۔ اس میں گہری حکمت عملی درکار ہوتی ہے اور یہ ویسے ہی ہے جیسے ہم مختلف سیاسی پارٹیوں کو کرتا دیکھتے ہیں۔ پروفیسر ڈی وال کہتے ہیں کہ’اگر تین نر ہوں اور ان میں ایک جسمانی طور پر طاقتور ہو تو ان میں دوسرے دو مل کر اِس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔’ ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اگر یہ جسمانی طور پر مضبوط نر کی سیاسی حمایت کریں تو انہیں اس طاقتور چمپینزی کے لیے آلہ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’ سیاسی طاقت کے حصول کے لیے چیمپنزی کو خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ لیڈر بننے کے خواہاں چیمپنزی بچوں کو بوسہ دینے کے لیے بالکل ویسے ہی تیار رہتے
ہیں جیسے سیاست دان۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنی حمایت بڑھانے کے لیے وسائل کو بھی تقسیم کرتے ہیں جس میں گوشت وغیرہ تقسیم کرنا شامل ہے۔ پروفیسر وال کے مطابق’جاپانی سائنسدان ٹوشیسادا نیشیدا نے ایک چمپینزی پر تحقیق کی جو بارہ سال تک اپنے گروہ کا لیڈر رہا۔’ پروفیسر وال نے اس تحقیق کے بارے میں مزید بتایا کہ ‘وہ دوسرے نر چمپینزیوں سے گوشت اپنے قبضے میں لے کر اسے اپنے حامیوں میں تقسیم کرتا تھا اور اپنے مخالفین کو نہیں دیتا تھا۔ اُس نے رشوت دینا کا ایک نظام قائم کیا ہوا تھا جو وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا تھا۔’ درحقیقت چمپینزی لیڈر اپنے گروہ پر ٹیکس لگا رہا تھا اور پھر اسے اپنے حامیوں میں تقسیم کرتا تھا۔ ووٹرز کو رشوت دینے کا یہ طریقہ وہ بھی کسی اور کے پیسوں سے صرف انسانی سیاستدانوں تک محدود نہیں۔جنگ ایک اور مشابہت گروہوں کے درمیان تصادم کے وقت سامنے آتی ہے۔ چمپینزی اکثر دوسرے گروہوں پر دھاوا بول کر اُن کے ممبران کو بری طرح قتل کر دیتے ہیں۔ انہیں دوسرے جانوروں جیسا کہ سانپوں سے خطرہ رہتا ہے۔ اور بالکل انسانوں میں رائج سیاست کی طرح چمپینزیوں میں بھی بیرونی خطرات اندرونی اختلافات کو ختم کر دیتے ہیں اور سب اپنے لیڈر کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ امریکی ریاست ٹینسی کی ونڈربلٹ یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر مارک ہیتھرانگٹن کہتے ہیں کہ تحقیق بتاتی ہے کہ ووٹر کبھی کبھار
‘جھنڈے تلے متحد ہوجاتے ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ ‘سنہ دو ہزار کی شروعات میں جارج ڈبلیو بش اپنے دورِ صدارت میں کچھ خاص مقبول نہیں تھے مگر دو ہزار ایک میں ستمبر گیارہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد اُن کی مقبولیت نوے فیصد تک پہنچ گئی تھی۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘یہ ‘جھنڈے تلے متحد ہوجانے کی ٹیکسٹ بک مثال ہے ‘ ڈاکٹر الیسن کرونن پرائماٹولوجسٹ ہیں اور برطانوی علاقے ڈورسیٹ میں منکی ورلڈ کی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان جانوروں میں بھی یہی خصلت پائی جاتی ہے۔ ‘اگر کوئی بیرونی خطرہ ہو جس سے سب متاثر ہوسکتے ہیں تو یہ سب کو یکجا کر دیتا ہے۔’ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ‘جو عام دنوں میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے وہ بھی گروہ کا حصہ بن کر سب کا دفاع کرتے ہیں۔ پھر آپ دوسروں کے لیے اور دوسرے آپ کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔’ یہ مشابہت حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ انسان بھی حیوان ہیں۔ تو پھر اگلی دفعہ آپ سیاستدانوں کو دیکھیں تو ضرور یاد رکھیں کہ ہم بھی سیاسی حیوانوں ہی میں سے ایک ہیں۔