گاجر، سٹرابیری، پیاز اورسلاد وغیرہ۔ ساٹھ سالہ فان رائسل بیرخا نے ’نمکین آلو فارم‘ کا آغاز دس برس پہلے کیا تھا اور انہیں ایمسٹر ڈیم یونیورسٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کے مطابق دنیا بھر میں آلووں کی پانچ ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ دنیا کی چوتھی مرغوب ترین غذا بھی ہے۔تحیقق کی دنیا میں زیادہ تر توجہ فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے پر مرکوز ہے لیکن ہالینڈ کی یہ ٹیم ایسی زمین پر فصلیں اگانے کے لیے کام کر رہی ہے،جسے ناقابل کاشت سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پانی، ماحولیات اور صحت کے مطابق دنیا کے 75 ممالک میں روزانہ پانچ ہزار ایکڑ رقبہ نمکین پانی کی وجہ سے ناقابل کاشت ہوتا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے دریائے سندھ، چین کے دریائے زرد اور شام و عراق کے دریائے فرات کے مضافات میں ناکارہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے طریقے انتہائی مہنگے ہیں۔ مارک فان رائسل بیرخا کے مطابق ان کی ٹیم نے ہزاروں آلو پاکستان بھیجے تھے، جہاں ان کا تجربہ ”کامیاب“ رہا ہے جبکہ آئندہ برس زیادہ پودے بھیجے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ آلووں کی یہ قسم متاثرہ علاقوں میں ہزاروں کسانوں کی زندگیاں تبدیل کر دے گی۔یورپ میں آلووں کی پیداور کا آغاز سولہویں صدی میں اس وقت ہوا تھا، جب یہ لاطینی امریکی ملک پیرو سے درآمد کیے گئے تھے۔ یورپ میں یہ اس وجہ سے بھی مشہور ہوئے کہ یہ سستے تھے اور ان کی پیداوار بھی مشکل نہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ مغربی باشندوں کا اس فصل پر انحصار اس قدر بڑھ چکا تھا کہ انیسویں صدی میں آئرلینڈ میں آلوو¿ں کے قحط کی وجہ سے حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔محقیقین کے مطابق نمکین ماحول میں پیدا ہونے والے آلو زرخیز زمین پر اگنے والے آلووں کی نسبت زیادہ میٹھے ہوتے ہیں کیونکہ یہ پودوں کو نمکیں ماحول کے خلاف مزاحمت کے لیے زیادہ شوگر پیدا کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جذب کیا گیا نمک پتوں اور تنے تک محدود رہتا ہے جبکہ آلو اس سے محفوظ رہتے ہیں۔عام آلووں کی نسبت ان آلوو¿ں کی قیمت بھی کم ہے جبکہ عام حالات میں ان کی پیداوار فی ہیکٹر تقریبا تیس ہزار کلو جبکہ سازگار حالات میں ساٹھ ہزار کلو رہتی ہے۔ مارک فان رائسل بیرخا کے مطابق بنگلہ دیش، مصر اور بھارت نے بھی سالٹ پروف فصلوں کے لیے ان کی مدد مانگی ہے۔