اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) کیا آپ نے کبھی ایک سالہ بچے کا بغور مشاہدہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو اپنے اطراف میں موجود کسی بھی ایک سال کے بچے کو اس وقت بغور دیکھیئے جب وہ جاگ رہا ہو تو بھرپور طریقے سے متحرک بھی۔ ایسا معلوم ہوگا کہ یہ بچے دنیا کو بغور دیکھ رہے ہیں، چیزوں میں مماثلت تلاش کررہے ہیں اور سب سے بڑھ کے نئی نئی چیزوں کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس امر کی تصدیق اب سائنس بھی کرچکی ہے۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایمی سٹال اور لیزا فیگنسن نے ایک تحقیق اور مشاہدے کو سائنسی جرنل کے تازہ ترین شمارے میں شامل کیا ہے۔ اس میں محققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ بچے کسی سائنسدان کی طرح چیزوں کو غیر معمولی توجہ دیتے ہیں اوراس کے بارے میں اپنے دماغ میں پیشنگوئیاں کرتے ہیں۔ جب ان کی پیشنگوئی کے مطابق کام نہیں ہوتا ہے تو وہ اس پر بھی غور کرتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ یہ جاننے کیلئے کہ ابھی ابھی کیا ہوا تھا، تجربے بھی کرتے ہیں۔ ایمی اور لیزا نے ماضی میں کی گئی مختلف تحقیقات جن میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ بچے کسی بھی چیز کو زیادہ دیر تک کیوں دیکھتے ہیں، ایک تجربہ کیا۔ اس تجربے میں گیند کو ایک دیوار سے گزرا گیا یا پھر ایک چھوٹی گیند کو خالی جگہ سے گزارا گیا۔ اس کے بعد بچوں کو ایک ایسی گیند دکھائی گئی جو کہ پراسرار طور پر غائب ہوجاتی ہے۔ ان تجربون کے بعد جب بچوں کے حوالے گیندیں کی گئیں تو یہ محسوس کیا گیا کہ بچے اپنے مشاہدوں کو تجربے سے ثابت کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ماہرین نے محسوس کیا کہ بچوں کو گیند کے ہوا میں غائب ہونے والے تجربے نے زیادہ متاثر کیا اور انہوں نے گیند کو اس انداز میں ہلایا اور اس سے کھیلا کہ گویا وہ یہ یقین کرنا چاہتے ہوں کہ گیند ہوا میں غائب ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ان تجربوں کی روشنی میں ماہرین نے یہ اندازہ قائم کیا کہ بچے، بڑوں سے زیادہ بڑے سائنسدان ہوسکتے ہیں۔ بڑوں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ حقائق کو صرف اپنی معلومات کی عینک سے دیکھتے ہیں اور انہی حالات و واقعات پر توجہ دیتے ہیں جنہیں ہم پہلے سے مانتے ہوں۔ دوسری جانب بچوں میں ایسا کوئی یقین موجود نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ ان حقائق کی تلاش میں رہتے ہیں جو کہ ان کے بنائے ہوئے نظریوں کو رد کرے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں