لندن(نیوز ڈیسک)یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر برائن سیکیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انیسویں صدی میں روسی پہاڑیوں سے پکڑی جانے والی جنگلی خاتون ”زینا“ انسان نہیں تھیں۔ پروفیسر برائن کا خیال ہے کہ بندر نما عورت کہلانے والی زینا کا تعلق اسی برفانی آدمی کی نسل سے تھا جس کے بارے میں صدیوں کی تحقیق کے بعد بھی ماہرین تاحال کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرپائے ہیں۔ زینا کو دیکھنے والے عینی شاہدین کے مطابق جارجیا اور روس کے بیچ کاکیشیا کے پہاڑوں سے ملنے والی یہ خاتون ظاہری طور پر عورت معلوم ہوتی تھی تاہم اس کے جسم پر موجود بالوں کی بھاری تعداد اور جانوروں جیسی حرکات کی وجہ سے اس کی نسل کے حوالے سے ماہرین مختلف سوالات اور پہلوو¿ں پر غور کررہے تھے۔زینا کو مقامی آبادی نے اس علاقے میں آزادانہ پھرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے کارناموں کے حوالے سے موجود قصوں کے بعد مقامی تاجر نے1850میں شکاریوں کے ایک گروہ کی خدمات حاصل کی تھیں جنہوں نے سخت محنت اور صبرآزما دور کے بعد زینا کو پکڑ لیا تھا۔ پروفیسر برائن کا دعویٰ ہے
کہ اس کے بعد زینا کی بدقسمتی کا آغاز ہوا کیونکہ ایک تاجر سے دوسرے تاجر اور پھر دولت مند افرادکے بیچ زینا ایک پنجرے میں فروخت کی جاتی رہی۔ اکثریت زینا کو ایک نمائشی جانور کی حیثیت سے خریدتی تھی۔ آخر کار وہ ایک معزز تاجر ایجی گینابا کے ہاتھ لگی۔ کہا جاتا ہے کہ ایجی کو زینا سے محبت ہوگئی اور اس نے اس کی دیکھ بھال اور اسے عام انسانوں کے بیچ رہنا سکھایا۔ زینا کے کم از کم بھی چھ بچے بھی پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ زینا کے بیشتر بچے بچپن میں ہی مر جاتے تھے جبکہ کم از کم بھی چار بچوں کا حوالہ بھی موجود ہے جنہیں ایجی نے دیگر خاندانوں کے حوالے کردیا تھا اور انہوں نے ان خاندانوں کے ہمراہ عام انسانوں کی سی زندگی گزاری۔
ڈاکٹر برائن نے زینا اور اس کے خاندان کا پس منظر جاننے کیلئے زینا کے خاندان کے افراد کے منہ سے رطوبتیں حاصل کیں تھیں اور ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔ اس ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ زینا کے ڈی این اے سے یہ امر تو ثابت ہوا ہے کہ زینا کا تعلق افریقہ سے تھا تاہم افریقہ کے تاحال جتنے بھی گروہ دریافت ہوئے ہیں، ان میں سے کسی کا بھی زینا سے تعلق دریات نہیں ہوسکا ہے۔پروفیسر برائن نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جس کا نام دی نیچر آف دی بیسٹ رکھا گیا ہے۔ پروفیسر برائن نے اس کتاب میں زینا کے حوالے سے ان نظریات کی بھی تردید کی ہے کہ وہ عثمانوی دور خلافت سے بھاگ کے آنے والی ایک غلام تھی اور خود کو بچانے کیلئے ایسا بھیس بدلے ہوئے تھے۔ پروفیسر برائن آنکھوں دیکھے احوال کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ وہ دریاو¿ں اور سمندروں میں ایسے وقت میں تیراکی کرتی تھی جب جوار بھاٹے کی وجہ سے عام افراد ان پانیوں میں قدم رکھنے کا سوچتے بھی نہ تھے۔ اس کے دوڑنے کی رفتار اس قدر تھی کہ گھوڑا اس کا پیچھا نہ کرپا تھا اور کسی انسان کے لئے ایسے کام ناممکن ہیں۔ امکان ہے کہ ایک لاکھ برس قبل زینا کی نسل کے افراد افریقہ سے آئے تھے اور پھر اس علاقے میں رہنے کی وجہ سے وہ برفانی آدمی بن گئے۔دلچسپ ترین امر یہ ہے کہ پروفیسر برائن کی اس کتاب میں ان کے دعووں کی حمایت کیلئے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور انہوں نے یہ پوری کتاب عینی شاہدین کے بیان کردہ آنکھوں دیکھے حال کی بنیاد پر لکھ ڈالی ہے۔
انیسویں صدی میں روسی پہاڑیوں سے پکڑی جانے والی جنگلی خاتون: بارے سائنسی تحقیق
7
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں