اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گندم اور چینی کا موجودہ بحران حکومتی فیصلوں میں تاخیر کا نتیجہ ہے۔روزنامہ جنگ میں حنیف خالد کی شائع خبر کے مطابق اگر حکومت اس وقت ایک ملین ٹن سے زیادہ گندم کے ٹینڈر منظور کر لیتی جب 235ڈالر فی ٹن تک دستیاب تھی تو جنوری فروری
میں کراچی پہنچ وسطی ایشیائی گندم 280سے 290ڈالر فی ٹن نہ خریدنا پڑتی۔ وزیراعظم کو اس قومی نقصان اور تاخیر کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی کے اٹھتے ہوئے بحران کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت سفید چینی کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور دوسرے محصولات زیرو کر دے، پاکستانی شوگر ملوں کی چینی پر بھی سترہ فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 7فیصد کر دیا جائے تو ملک میں پیدا ہونے والا چینی کا خوفناک بحران قابو میں آ جائیگا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری ذکا اشرف کا کہنا ہے کہ اگرچہ گنے کی کم سے کم قیمت خرید حکومت نے دو سو روپے من مقرر کی مگر اب کین کمشنر کے تاخیری فیصلوں جو انہیں غیر قانونی گنے کی غیرقانونی خریداری کے مراکز بند کرنے اور لائسنس کے بغیر گنا خریدنے والے مڈل مینوں کو اینٹی ہورڈنگ ایکٹ کے تحت جیلوں میں ڈالنے کا اختیار استعمال کرنا ہے اس اختیار کے استعمال میں تاخیر کے نتیجے میں گنے کے ریٹ کم و بیش تین سو روپے من تک پہنچ گئے ہیں اور بعض علاقوں میں اس سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔ جب ملیں مہنگا گنا خریدیں گی تو وہ چینی کے ایکس ملز ریٹ بھی اسی تناسب سے بڑھانے پر مجبور ہونگی۔