اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی)وزیراعظم کی ملکی معیشت کی بہتری کوششیں تیز ، بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی قریب پہنچ گئے ۔نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق 200عالمی کمپنیوں کے کنسورشیم کی جانب سے 5 ارب ڈالر کی شراکتی سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے ، چینی حکومت اور کمپنیاں بھی پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں ۔
ذرائع کے مطابق پاکستان میں 3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ممکنہ8 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری سے آگاہ کر دیا گیا۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جان و مال کے تحفظ تک کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، ملک میں سب کچھ ہے صرف گورننس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،جب تک ملکی آمدنی نہیں بڑھتی، اس وقت تک صبر کرنا پڑیگا ،حکومتی اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہو گیا ہے، مہنگائی کے لحاظ سے تنخواہیں کم ہیں اور جیسے جیسے معیشت بہتر ہوگی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے، وزیراعظم ہاؤس کے 60 سے 70 فیصد اخراجات کم کیے ہیں،صرف اوورسیز پاکستانی اس ملک کو اٹھا سکتے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بڑھانے کے لیے پولیس کا بہت اہم کردار ہے،فوج سرحدوں کی محافظ اور پولیس شہریوں کی محافظ ہوتی ہے،تحریکِ انصاف نے خیبر پختون خوامیں پولیس کو تبدیل کیا، چاہتا ہوں قوم پولیس کو پسند کرے۔بدھ کو اسلام آباد پولیس لائنز میں پاسنگ آوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پولیس میں پاس آؤٹ ہونے والے نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اس لیے یہاں خاص طور پر یہاں آیا ہوں کہ پاکستان کی پولیس کو ایک پیغام دوں کہ جب تک ایک قوم کی جان اور مال کی حفاظت نہیں ہوتی، وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔انہوں نے کہا کہ
جو سرحدوں پر پاکستان کے جان و مال کی حفاظت کرتی ہے، وہ پاکستان کی فوج ہے اور جو ملک کے اندر سیکیورٹی دیتی ہے اور شہر میں سرمایہ کار، کاروباری شخص اور شہری کی حفاظت پولیس کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جب تک قانون کی عملداری نہیں ہوتی اور لوگوں کے لیے سیکیورٹی نہیں ہوتی، اس وقت تک قوم کی خوشحالی نہیں آتی،
اس لیے پولیس کا معاشرے میں انتہائی اہم مقام ہوتا ہے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کا وہ مقام نہیں ہوا جس کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ غلامی کے دور میں انگریز کی پولیس تھی تو انگریز پولیس سے غلط حرکتیں کراتا تھا، لوگوں کو دباتا تھا، حقوق سلب کرتا تھا، پولیس سے لوگوں کو خوف تھا لیکن اسی انگریز کے اپنے ملک میں پولیس ایسی نہیں تھی بلکہ
ان کے اپنے ملک میں پولیس شہریوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور شہری ان کو اپنا سمجھتے تھے لیکن کیونکہ انہوں نے ہمیں غلام بنایا ہوا تھا اور وہ حکومت کرتا تھا تو یہاں پولیس کا رویہ مختلف تھا۔انہوں نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ قوم ہماری پولیس کو پسند کرے، اپنا سمجھے، ان سے پیار کرے۔انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں پختونخوا میں ہماری حکومت آئی تو سب سے زیادہ دہشت گردی پختونخوا پولیس کے خلاف تھی، 500 سے اوپر پولیس اہلکار شہید ہو چکے تھے اور پولیس کا مورال نیچے گرچکا تھا
لیکن وہاں کی پولیس ہمارے دیکھتے دیکھتے جس طرح تبدیل ہوئی، جس طرح سے انہوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور پھر ایسا وقت آیا کہ پشاور اور مردان کے شہریوں نے پولیس کی حمایت میں جلوس نکالے اور مجھے فخر ہوا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس پولیس کو بدلتے دیکھا۔عمران خا ن نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ کافی نہیں ہے بلکہ ہمارے اکثر تنخواہ دار طبقے کو
جو تنخواہ ملتی ہے وہ کافی نہیں ہے کیونکہ کئی سالوں سے مہنگائی بڑھتی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ سیاستدان جن کو اللہ نے موقع دیا اور ملک کا سربراہ بنا دیا، ان کے سامنے بھی صحیح اور غلط کے راستے تھے، وہ حلال کی کمائی بھی کر سکتے تھے لیکن جس راستے پر وہ نکل گئے آپ کے سامنے آج وہ عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں، ان کو خود نہیں پتہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے لیکن کبھی ہسپتالوں جارہے ہیں،
کبھی ملک سے باہر جا رہے ہیں، کبھی بچے باہر جا رہے ہیں، بچوں کو باپ کی چوری کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا پڑرہا ہے، ایسے پیسے کا کیا فائدہ، یہ پیسہ اللہ کا عذاب ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں پولیس کا بہت بڑا کردار ہے، پولیس ایک معاشرے میں جب لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اور لوگ پولیس کو اپنا لیتے ہیں تو یاد رکھیں کہ وہ معاشرہ اٹھ جاتا ہے کیونکہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے بیرون ملک پاکستانی اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں،
وہ یہاں پیسہ لا کر پلاٹ یا گھر لیتے ہیں تو اس پر قبضہ ہوجاتا ہے، تو جب وہ گھر یا پلاٹ نہیں لے سکتے تو یہاں سرمایہ کاری کیسے کریں گے، فیکٹریاں کیسے لگائیں گے، یہ بات ذہن میں ڈال لیں کہ صرف اوورسیز پاکستانی اس ملک کو اٹھا سکتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت نہیں اعتماد نہیں ہے کہ ہمارا پیسہ یا سرمایہ محفوظ رہے گی اور اس لیے پولیس کا
بہت بڑا کردار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر گھر پر کبھی نہ کبھی مشکل وقت آتا ہے اور جب گھر پر قرضے چڑھتے ہیں تو وہ آمدنی بڑھنے تک اپنے خرچے کم کرتا ہے، جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، میں نے بھی وزیر اعظم ہاؤس کے 60ـ70 فیصد خرچے کم کیے ہیں، وفاقی حکومت نے 40ارب کے خرچے کم کیے ہیں کیونکہ ہم قرضوں ہر گزارا نہیں کر سکتے۔وزیر اعظم نے کہا کہ
میں فخر سے کہتا ہوں کہ جو دو ہمارے سب سے بڑے مسئلے تھے جن میں سے ایک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جو 17 سال کے بعد لگاتار پانچویں مہینے میں سرپلس میں چلا گیا ہے اور دوسری ہمارے اندرونی خرچ ہیں، اگر ہمیں قرض کی اقساط ادا نہ کرنی پڑیں تو اس میں بھی ہم نے توازن پیدا کر لیا ہے، یہ دو سالوں میں ہماری حکومت نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ساری قوم سے کہتا ہوں کہ
جب تک ہماری آمدنی نہیں بڑھتی، اس وقت تک آپ کو صبر کرنا پڑے گا کیونکہ جس طرح آگے ہمارے حالات نظر آرہے ہیں، ہمارے ملک میں اللہ نے سب کچھ دیا ہے، صرف ہم نے اپنا گورننس کا نظام درست کرنا ہے اور ہمارے پاس اتنا پیسہ ہو گا کہ سارے پاکستان میں پولیس سمیت تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ میں اسلام آباد پولیس کو دو چیزیں کہنا چاہتا ہوں کہ
ساری اسلام آباد پولیس کے ہر گھر کو ایک ہیلتھ کارڈ دیں گے، ہر گھر کے پاس ایک ہیلتھ انشورنس ہو گی اور 10 لاکھ روپے تک آپ کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرا سکیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جو ہم نیا پاکستان ہاؤسنگ بنا رہے ہیں اور اب سرکاری نوکر گھر کا کرایہ دینے کے بجائے اقساط ادا کرے گا اور وہ گھر اس کا اپنا ہو جائے گا، اس میں آپ جیسے پولیس والوں اور
سرکاری نوکروں سے آغاز کریں گے۔انہوں نے ملک بھر کی پولیس کے نام پیغام میں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری پولیس ایک مختلف سطح ہو، جس کی معاشرے میں عزت ہو اور معاشرہ اسے اپنا سمجھے اور جس طرح ہم نے پختونخوا میں ایک تبدیلی دیکھی تھی، وہ میں سارے پاکستان میں دیکھنا چاہتا ہوں۔انہوں نے پولیس کو مزید پیغا دیا کہ آپ عام وی آئی پی سے تو اچھا برتاؤ کرتے ہی ہیں،
میں چاہتا ہوں کہ آپ عام آدمی کو وی آئی پی بنائیں اور اس کو عزت دیں۔وزیراعظم نے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کو ہیلتھ کارڈ دینے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنخواہ پنجاب پولیس کے برابرکرنے پر غور کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کرکٹ کے دوران مجھے جنوبی افریقہ میں کرکٹ کھیلنے کی بہت پیشکشیں آتی تھیں، اگر میں وہاں کھیلتا تو پیسہ بہت ملتا لیکن عزت نہ ملتی کیونکہ اس سے
مجھے وہاں کی نسل پرست حکومت کی حمایت کرنی پڑتی، ہر انسان کے سامنے دو راستے انسانی عظمت اور شیطانیت کے ہوتے ہیں، نیکی کے راستے پر چلنا آسان نہیں لیکن اسی میں کامیابی ہے، نیکی کا راستہ مشکل اور گناہ کاآسان ہوتا ہے لیکن گناہ کا تباہی کا راستہ ہوتا ہے، قرآن میں واضح لکھا ہے رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔