لاہور (آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ جعلی حکمران لاہور کے جلسے سے خوف زدہ ہیں لیکن ہم گھبرا کر گھر نہیں بیٹھیں گے۔ پی ڈی ایم بہت بڑے فیصلے کرنے جارہی ہے، آٹھ دسمبر کو آر ہو گا یا پار ہو گا،وہ وزیراعظم کہاں ہے جو سائیکل پر دفتر جاتا تھا؟، آج کل ایماندار اسے کہا جاتا ہے ، جو چور بھی ہو اور تابعدار بھی ہو، وہ تابعدار ہے اسی لیے
وہ ان کے پاس آخری آپشن ہے ، پاکستان کے قرضے آسمان پر پہنچ گئے لیکن بندہ تابعدار ہے اس لیے کوئی نہیں پوچھ رہا ، آج سے عمران خان صاحب کا نام تابعدار خان رکھ دینا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوا رکو لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مریم نواز نے سوشل میڈیا ونگ کے ذمہ داروں کا بھی تعارف کرایا اور کہا کہ نواز شریف نے 7، 8 سال پاکستان مسلم لیگ (ن) سوشل میڈیا ونگ کی ذمہ داری مجھے سونپ دی تھی تو اس وقت یہ ایک چھوٹا گروپ تھا لیکن آج پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ایک قدآور دخت بن چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سوشل میڈیا سیل اب صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ میں پاکستان میں جہاں بھی جاتی ہوں ہر جلسے اور جلوس کی پہلی صفوں میں سوشل میڈیا کے کارکن ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی موجودگی میں کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کے بیانییے کو سوشل میڈیا نے جگہ جگہ پہنچایا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میںکیا ہورہا ہے، آج جو ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے، ریاست کے کئی ستون ہوتے ہیں، جبب نواز شریف کو ایک اقامے کی بنیاد پر حکومت سے بے دخل کیا گیا اور 2018 کے انتخابات چوری کیے گئے اور یہ نااہل اور سلیکٹڈ حکومت کو ہمارے سروں پر مسلط کردیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اس بس کو جو روز جلتی
بھی ہے اور دھکا لگانا پڑتا ہے لیکن یہ بس چل نہیں رہی ہے اور آج کیا پاکستان اور حکومت چل رہا ہے، روز صبح پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی دوگنا ہوگئی ہے۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گیس آ نہیں رہی لیکن ہزاروں کا بل آرہا ہے، کون کہتا تھا کہ سبز پاسپورٹ کی عزت کرواؤں گا، آج مختلف ممالک میں پاکستان کی پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے، سائیکل پر چلنے
والا وزیراعظم کہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ آج جعلی وزیراعظم کسی شہر میں آتا ہے تو عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر پورا شہر بند کردیا جاتا ہے، انہیں کیا خطرہ ہے ، خطرہ تو نواز شریف جیسے حکمرانوں کو تھا کیونکہ جب وہ حکومت میں آیا تو ہر طرف بم دھماکے اور ڈرون حملے ہورہے تھے لیکن انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دیشت گردی کے خلاف ضرب عضب اور ردالفساد جیسی
دو جنگیں لڑیں، ملک سے دشہشت گردی کا خاتمہ بھی کر رہا تھا اور عوام میں بھی موجود ہوتا تھا۔مریم نواز نے حکومت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے باہر سے ایل این جی منگوانی تھی لیکن اس لیے دیر سے منگوائی کیونکہ ان کے وہ دوست جو ان کے کیچن اور پارٹی کے خرچے چلاتے ہیں اور ان کے فرنس آئل کے پلانٹ ہیں اور اس سے عوام کا 122 ارب روپے
کا نقصان ہوا اور یہ نقصان عوام کے خون پسینے کی کمائی پر دیے جانے والے ٹیکس میں کرپشن سے ہوتا ہے لیکن بندہ بہت ایمان دار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بجائے بجلی سستی ملتی ان کے کیچن چلانے والے دوستوں کا فائدہ ہوا مگر بندہ ایمان دار ہے، سپریم کورٹ نے بلین ٹری کے بارے میں کہا کہ درخت کہاں ہیں ہمیں تو کہیں نظر نہیں آرہے ہیں لگتا ہے بنی گالا میں لگے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں آکسیجن گیس نہیں ملنے کی وجہ سے کورونا کے 7 مریض انتقال کر گئے، کوئی اس سے پوچھنے اور آئینہ دکھانے والا ہے کہ آپ کے بڑے بڑے دعوے کہاں گئے، اس حکومت نے ایک ہسپتال نہیں بنایا اور ہسپتالوں میں لکھ کر لگایا گیا ہے کہ اسڑیچر چاہیے تو 20 روپے ادا کریں۔ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں شہباز شریف نے چلڈرن ہسپتال بنایا تھا جہاں فنڈز
نہ ہونے کی وجہ سے 100 بچے انتقال کرگئے کیونکہ شہباز شریف کی حکومت اس کے لیے گرانٹ دیتی تھی، اسی طرح امن و امان کی حالت ایسی ہے کہ مائیں بہنیں محفوظ نہیں، موٹروے واقعے پر افسر نے کہا کہ رات کے وقت باہر نکلنے کی کیا ضرورت تھی۔مریم نواز نے کہا کہ عمران خان دعوے کرتا تھا کہ میں 90 دنوں میں کرپشن ختم کروں گا ۔ یہ حکومت بڑی چالاک ہے، جس نے
ایک میڈیا ہاؤس کو دوسرے میڈیا ہاؤس اور اینکرز کو آپس میں لڑا دیا، آج میڈیا اتنا بھی آزاد نہیں ہے کہ ایک ریٹائرڈ افسر کا نام ٹی وی پر چلا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ جو چینلز دباؤ کا سامنا کرنے سے انکار کرتے ہیں یا اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ان کے سربراہان کو نیب کے سیل میں ڈالا جاتا ہے، جیو کے سربراہ کو بند کردیا گیا، آج کل جیو ہمارے بہت خلاف ہے لیکن مجھے پتہ
ہے کہ ان پر اوپر سے دباؤ ہے، سب چینلز آج جو سبق پڑھایا جاتا ہے، یا لکھا ہوا آتا ہے اور چھوٹے سے افسر کا فون آجاتا ہے تو اس کو ماننا پڑتا ہے اور مجھے پتہ وہ مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ کیا سدا اسی طرح مجبوری میں بیٹھے رہو گے، پاکستان میں سچ اور حق بولنے کی طاقت رکھتے تھے ان کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا اور چینلز کو کہا گیا کہ فلاں فلاں اینکر کو نکال دو ورنہ
چینل کو بند کردیں گے اور چینل بند کردیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح مطیع اللہ جان اور علی عمران کو دن دہاڑے غائب کردیا جاتا ہے اورجعلی وزیراعظم ٹی وی پر آکر کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں تھا، اگر تمھہیں یہ نہیں معلوم کہ کراچی میں مریم نواز کے کمرے پر حملہ کیا، کیپٹن (ر) صفدر اور آئی جی کو کس نے اغوا کیا تو عوام آپ کا نام خوامخواہ کیوں نہ رکھیں۔ میڈیا کے
حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا سے بھی درخواست کرتے ہیں کب تک ہاتھ جوڑ کر مار کھاتے رہوگے، کب تک یہ برداشت کروگے کہ حق سچ بات کہنے کے لیے تمھارے گھروں سے دن دہاڑے تمہیں گھسیٹ کر لے جائیں اور بعد میں آپ کو کہنا پڑے کہ میں شمالی علاقے کی سیر کے لیے گیا تھا۔مریم نواز نے کہا کہ میڈیا بھی کسی کا آلہکار بنے سے انکار کردے تو میں
دیکھتی ہوں کہ چینل اکٹھے ہوجائیں تو کون ان میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ عدلیہ کی بات بھی کرنا چاہتی ہوں، جج ارشد ملک صاحب بھی اچانک دنیا سے رخصت ہوگئے، اللہ ان کی مغفرت کرے، میں نے ان کی ویڈیو جاری کی تھی، جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے بلیک میل کر کے نواز شریف کے خلاف فیصلہ لیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی
فائز عیسیٰ نے پٹیشن فائل کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مشتمل تھا اور سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے حکمت عملی کے تحت کہا کہ آپ کے خلاف ریفرنس آنے والا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ ریٹائر ہوجائیں، استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اسی طرح نواز شریف کو ڈراتے تھے اور جب وہ وزیراعظم تھا تو کہتے تھے کہ یہ کردو
ورنہ پاناما میں کچھ کردیں گے اور جب پاناما آیا تو چپ کرکے گھر چلے جاؤ ورنہ یہ ہوگا اور وہ ہوگا لیکن وہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے انکار کردیا۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں اپنی معزز عدلیہ کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح کے احکامات مانتے ہیں تو پچھلے دو چیف جسٹسز کا حال ہوا ہے، جب وہ کرسی میں ہوتے ہیں تو سب احتراماً یا ان کے خوف کے مارے سلام کرتے لیکن
جب کرسی چھوڑ کر جاتے ہیں تو ان سے ہاتھ ملانے کا بھی روادار نہیں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کامیاب انسان وہ ہے کہ جس کو جانے کے بعد لوگ یاد کریں کہ وہ بہادر تھا، جیسے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے مشرف کی پھانسی کی سزا دی تھی، آج وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن ان کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا اور یہ بھی سوچوں کہ دو سابق چیف جسٹسز
کو کیسے یاد کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ کی بہادری کو سلام پیش کیا جاتا ہے جبکہ سابق دو چیف جسٹس کو کس طرح یاد کیا جا رہا ہے، پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو اور کوئی فیصلے انتقام کی بنیاد پر نہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام یہ جنگ جیت چکے ہیں اور 13 دسمبر کو اعلان ہونا باقی ہے، پی ڈیم ایم 8 دسمبر کو بڑے فیصلے کرنے جا رہی ہے اور اگر
اسمبلی سے استعفوں کا فیصلہ ہوا تو تمام منتخب اراکین اس پر عمل کریں اگر کوئی رکن دباؤ میں آیا تو عوام اس کا گھیراؤ کریں گے ۔ مریم نواز نے کہا کہ الیکشن چوری کرکے نااہل حکومت مسلط کردی گئی ہے۔روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب روٹی 30 روپے کی ہو گی تو گھر کیسے چلے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان جانتے ہیں کہ ملکی حالات کا ذمہ دار
کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ایک پیج پرہونے کے باوجود بس کو روز دھکہ لگانا پڑتا ہے۔ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انتقام پر نہیں انصاف پر مبنی فیصلے ہوں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جعلی حکومت نے ایک بھی اسپتال بنوایا ہہے؟ انہوں نے کہا کہ بڑے بڑے دعوے کہاں گئے ہیں؟۔ مریم نواز نے کہا کہ موٹروے زیادتی کیس میں حکومتی اہل کار کہتے ہیں کہ عورت رات کو کیوں اکیلی نکلی؟ انہوں
نے کہا کہ اسی طرح 90 روز میں کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بلین ٹری منصوبے کے درخت کہاں لگے ہیں؟ انہوں نے استفسار کیا ہے کہ وہ وزیراعظم کہاں ہے جو سائیکل پر دفتر جاتا تھا؟ہ آج کل ایماندار اسے کہا جاتا ہے ، جو
چور بھی ہو اور تابعدار بھی ہو، وہ تابعدار ہے اسی لیے وہ ان کے پاس آخری آپشن ہے ، پاکستان کے قرضے آسمان پر پہنچ گئے لیکن بندہ تابعدار ہے اس لیے کوئی نہیں پوچھ رہا۔ بندہ ایماندار بھی ہے اور بندہ تابعدار بھی ہے، آج سے عمران خان صاحب کا نام تابعدار خان رکھ دینا چاہیے۔