اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرسی چھوڑنی پڑی چھوڑ دوں گا لیکن کرپشن کرنے والوں کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا، نوازشریف کو برطانیہ سے واپس لاؤں گا،کسی بھی کرپٹ کو این آراو نہیں دوں گا، اپوزیشن کے جلسوں سے پریشر میں نہیں آؤں گا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، آرگنائزر اور کرسیاں دینے والوں کے خلاف
قانونی کارروائی ہو گی،کئی صحافی سزایافتہ نوازشریف کے لیے آزادی اظہار کا حق مانگ رہے ہیں،یہاں میڈیا میں لوگ پیسوں کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں،ہم یکساں تعلیمی نصاب لا رہے ہیں جو اگلے سال2021ء سے لایاجائیگا،یہ کام ہمیں 70 سال پہلے کرنا چاہیے تھا، بڑے بڑے پیسے والے آئے اور چلے گئے، تاریخ صرف معاشرے کے لیے کچھ کرجانیوالوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے یوتھ کو بتانا چاہیے کہ ان کا رول ماڈل کیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے آٹھویں سے دسویں جماعت میں سیرت نبیﷺ کا مضمون رکھا ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی زندگی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو میری والدہ یہ دعا کیا کرتیں تھیں کہ ’’ یا اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا‘‘ اور میں سوچتا تھا کہ سیدھا راستہ کتنا بورنگ راستہ ہو گا ، کیونکہ ہمیں تو میڈیا اور فلمز ہمیں تو کوئی اور سوچ دی ہوئی تھی کہ مزے کا راستہ کچھ اور ہے ۔اپنے تجربے سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جس کو ہم بورنگ راستہ کہتے ہیں وہی اصل میںتمہاری دنیا اور آخرت میں خوشی اور کامیابی کا راستہ ہےجبکہ جو دوسرا جسے مزہ کا راستہ ہے وہ میں دیکھا کہ زندگیاں تباہ ہو رہیں ہیں کوئی ڈرگز لے رہا ہے ،شادیاں تباہ ہو رہیں ہیں،
بچوں میں خودکشی کا رحجان عام ہو تے اپنی ان آنکھوں سے دیکھاتو میں یہ محسوس کیا ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کا راستہ ہے وہ دین و دنیا میں کامیابی کا راستہ ہے ۔ عمراں خان نے کہا کہ دوسرا ہم ایک پی ایچ ڈی پروگرام لا رہے ہیں جس کا آغاز سرگودھا یونیورسٹی سے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگلے سال القادر یونیورسٹی بن جائے گی جہاں اسلام کی تاریخ پر ریسرچ اور صوفی ازم کی تعلیم دی جائے گی۔
کیونکہ برصغیر میں صوفی شخصیات کے توسط سے ہی اسلام پھیلا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے دینی مدارس سے کہا ہے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ دوسری کتابیں بھی پڑھیں تاکہ وہ مرکزی دھارے میں آ سکیں۔ جس پر وہ مان گئے ہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ یکساں نصاب کا نظام ہم اگلے سال سے لا رہے ہیں کچھ مضامین ایسے ہوں گے جو سب کو پڑھنے پڑیں گے۔عمران خان نے کہا کہ
یہ کام ہمیں 70 سال پہلے کرنا چاہیے تھا کیونکہ تین طبقاتی نظام کے باعث کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جو بھی بندہ کام کرتا ہے اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں یا تو وہ پیسے بنانے کے لیے کام کر رہا ہے یا عوام کے لیے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے زیادہ تر لوگوں کو اپنی ذات کی فکر لگی رہتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی پیسے والے شخص کا نام نہیں ہے۔ بڑے بڑے پیسے والے آئے اور چلے گئے۔ تاریخ صرف ان
کو یاد رکھتی ہے جو معاشرے کے لیے کچھ کرے۔ آج بھی بزرگان دین کے مزاروں پر لاکھوں لوگ جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے معاشرے کی بڑی طاقت اللہ اور آخرت پر یقین ہی ہے،تاہم ہمارا خاندانی نظام سب سے بڑی طاقت ہے جو ہمیں تحفظ مہیا کرتا ہے۔مغرب میں بہت زبردست فلاحی نظام ہے، وہاں غریب آدمی کے لئے علاج، لیگل ایڈ اور بے روزگاری الانس کی سہولت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاپ اسٹارز نے ڈرگ کو فیشن بنا دیا ہے۔ پاپ سٹارڈرگز استعمال کرنے لگے تو نوجوان نسل نے سمجھا یہ برائی نہیں جس کے بعد وہ بھی اسے استعمال کرنے لگی۔وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے کی برائی کو اچھائی بنا کر پیش کیا جائے تو وہ پھیل جاتی ہے، اسطرح وہاں برائی پھیلی اور خاندانی نظام تباہی کی طرف گیا۔انہوں نے کہا کہ ہالی ووڈ میں آنے والی تبدیلی 10سال بعد بالی ووڈ پہنچ جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں علامہ اقبال جیسے جینئیس مائنڈ کی تعلیمات کی طرف جانا ہوگا، ہمارے پاس دو راستے ہیں، اچھائی یا برائی کا راستہ، گلیمر ہمیں مرغوب تو ہوتا ہے مگر اسکے پیچھے جاکر دیکھیں تو وہ تباہی ہے۔عمران خان نے کہا کہ ڈرگز اور نشے وغیرہ سے عارضی خوشی یا اطمینان ہوتا ہے تاہم دائمی خوشی آپ کو روحانیت سے میسر آ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اندر کی خوشی اور
اطمینان اللہ کی طرف سے آتا ہے اسے آپ بیان نہیں کر سکتے۔وزیراعظم نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات بتا تے ہوئے کہا کہ میں نے بہت مختلف زندگی گزاری ہے اور میری زندگی کا تجربہ باقیوں سے بڑا مختلف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں 18 سال کی عمر میں برطانیہ چلا گیا، مجھے نوجوانی میں دو مختلف ثقافتوں میں زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا۔عمران خان نے بتایا کہ میں نے اپنے تجربے سے
بہت کچھ سیکھا اور اسی تجربے سے ہی میرے اندر تبدیلی آئی ہے۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں غلامی کا دور تھا، اب ذہنی غلامی کا دور ہے، جوغلام بناتے ہیں وہ آپ کو نیچ سمجھتے ہیں۔اپنے زمانہ طالب علمی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں ہمیں اردو بولنے کی آزادی نہیں تھی، پہلے چار پانچ فیصد لوگ انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ایلیٹ کلبوں میں 1974 تک پاکستانی لباس پر بھی پابندی تھی۔وزیراعظم نے بتایا کہ ہمیشہ اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں اسی لئے کامیاب ہوتا ہوں، کرکٹ میں بھی جب تک کارکردگی سے متعلق سوچتا نہیں تھا سوتا نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ میں مسلسل اپنی زندگی کا جائزہ لیتا آیا ہوں، میں نے معاشرے کو اس طرح دیکھا جس طرح لوگوں کو موقع نہیں ملتا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرسی چھوڑنی پڑی
چھوڑ دوں گا لیکن کرپشن معاف نہیں کروں گا۔ اپوزیشن کے جلسوں سے پریشر میں نہیں آں گا، پی ڈی ایم کے جلسوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، آرگنائزر اور کرسیاں دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کئی صحافی سزایافتہ نوازشریف کے لیے آزادی اظہار کا حق مانگ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ ایک بدکردار اور نیک آدمی کو
برابر تصور نہیں کر سکتے، ہمارے ہاں کچھ صحافی عدالت میں چلے گئے اور کہا کہ نواز شریف کو تقریر کا موقع دیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو عدالت نے سزا دی، ان پر بہت سے کیسز ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو آزادی اظہار کا موقع فراہم کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں میڈیا میں لوگ پیسوں کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ نوازشریف کو ہرصورت برطانیہ سے واپس لاؤں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور ریپ کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آیا تو آئی جیز کا اجلاس بلایا، کرائم ڈیٹا دیکھا تو ریپ کیسز بڑھ رہے ہیں، ریپ کیسز میں ملوث ملزمان کو عبرت ناک سزائیں دینے کے لئے آرڈیننس لائے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ موبائل فون کے غلط استعمال نے تباہی مچا دی ہے، بچے وہ چیزیں دیکھ رہے ہیں جسکا تصور نہیں کیا
جاسکتا، ٹی وی وغیرہ پر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی نقالی کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ترک ڈرامے اس لئے لائے ہیں کہ اس میں اسلامی تعلیمات ہیں، آپ لوگوں پر پابندی نہیں لگا سکتے ان کو متبادل تفریح مہیا کر سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب کوشش کریں گے کہ ایسی چیزیں بنائیں جو معاشرے کو اوپر لے جائیں، جو معاشرہ اپنی اقدار اوپر لے جاتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ
مغلوں اور ترک خلافت کا دور دیکھ لیں جب خاندانی نظام تباہ ہوتا ہے تو ریاست قائم نہیں رہتی۔وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت کے لئے کام کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نمائندہ لوگ مرکزی حکومت میں نہیں آتے اس لئے پیچھے رہ جاتے ہیں، ہم بلوچستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ جنوبی بلوچستان تربت وغیرہ میں بڑا پیکج دیا ہے۔کراچی سے
متعلق انہوں نے بتایا کہ ہم کراچی پیکج پر سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، وہاں مقامی حکومتوں کا نظام بہت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ شہروں کی علیحدہ سٹی ڈسٹرکٹ حکومت ہونی چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قرضے ہیں، ہم نے قرضوں کی قسطیں دینی ہے جو ماضی کے حکمرانوں نے لیا تھا، ہم دنیا میں کم ٹیکس دینے والی قوم ہے۔اگر ڈھائی کروڑ لوگ ٹیکس دینے والے بن
جائیں تو ہمارے کئی مسئلے حل ہو جائیں گے،ہمارے ٹیکس دہندگان صرف 15لاکھ ہیں۔ملکوں کو قوم اٹھاتی ہے لوگ ٹیکس دینگے تو ملک ترقی کرے گا۔ن لیگ کے دوران میں برآمدات پانچ فیصد کم ہوئیں اوراگر رآمدات کم ہوں گی تو ڈالر کم ہو ں گے پھر قرض لینا پڑے گا۔انہوں نے کہاکہ جب آپ بیرون ممالک پیسے مانگنے جاتے ہیں تو یہ ملک کی توہین ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر آئندہ دنوں میں
ہم صرف سیاحت کو ٹھیک کرلیں تو بہت سے ڈالر ز پاکستان آئیں گے۔پاکستان میں آئی ٹی کی بڑی پوٹینشنل ہے ایف بی آر اور سٹیٹ بنک سے آئی ٹی کو سہولیات دینے کیلئے کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلے ہم ڈوب رہے تھے، اب مستحکم ہیں اور اگلے سالوں میں ملک ترقی کرے گا۔انہوں نے کہاکہ میری آخری کوشش ہے کہ کمزور اور طاقتور کو برابر لانا اور مجھے پوری امید ہے کہ میں اس کام میں کامیاب ہوجاؤں گا۔