اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاید چودھری اپنے کالم ’’بالامستری ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ہم اگر حضرت عمر فاروقؓ کی شخصیت کو دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو ”عدل فاروقی“ لکھ دینا کافی ہو گا‘ حضرت عمرؓ انصاف کے معاملے میں انقلابی تھے‘ یہ عدل کرتے وقت شریعت سے بھی گنجائش نکال لیتے تھے مثلاً حجاز اور شام میں قحط پڑا‘ لوگوں نے بھوک سے تنگ آ کر
خوراک چوری کرنا شروع کر دی‘ آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی‘ اپنے صاحب زادے کا ایشو سامنے آیا‘ گورنر مصر نے عرض کیا ”جناب ہم شریعت کے مطابق سزا دے چکے ہیں“ مگرآپؓ نے اپنے صاحب زادے کو لٹا کر اپنے ہاتھوں سے کوڑے مارے۔فارس کے ساتھ جنگ میں مجاہدین کم ہو گئے‘ آپؓنے عراق کے عیسائیوں اور مسیلمہ کذاب کے مرتدین کو بھی فوج میں بھرتی کرلیا اور بدکاری کے ایک مقدمے کے دوران نوجوان نے عرض کیا‘ میں اور یہ لڑکی دونوں جوان ہیں مگر ہمارے والدین نے ہماری شادی نہیں کی‘ آپؓ نے دونوں کا نکاح کرا دیا اور لڑکے اور لڑکی کے والدین کو کوڑے مروادیے‘یہ واقعات ثابت کرتے ہیں آپ ؓ انصاف کرتے ہوئے بڑی سے بڑی گنجائش نکال لیتے تھے‘ آپؓ کے دور کا واقعہ ہے‘ آپؓ کے سامنے ایک چور لایا گیا‘ آپؓ نے اسے سزا سنا دی‘ اس نے رو کر عرض کیا ”یہ میری پہلی چوری ہے‘ میرے ساتھ رعایت کی جائے“ آپؓ نے فرمایا‘ تم جھوٹ بول رہے ہو کیوں کہ قدرت کسی شخص کو پہلی یا دوسری غلطی پر سزا نہیں دلاتی‘ انسان جب تک اعتدال سے باہر نہیں نکلتا‘ یہ اس وقت تک پکڑا نہیں جاتا‘ تم بھی عادی چور ہو ورنہ قدرت تمہارے ساتھ رعایت کرتی“ آپؓ کی یہ بات تحقیق کے بعد سچ ثابت ہو گئی‘ مجرم نے تفتیش کے دوران اعتراف کر لیا وہ ماضی میں بھی چوری کی وارداتیں کرتا رہا تھا۔ہم اگر حضرت عمر فاروقؓ کے اس فارمولے پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے موٹروے کا سانحہ صرف ایک سانحہ نہیں یہ پانچ مختلف آوازوں پر مشتمل ایک بڑا سائرن ہے اور اس سائرن کے ذریعے قدرت ہمیں ہماری خامیوں کی اطلاع دینا چاہتی ہے‘ اس سائرن کی پہلی آواز بتا رہی ہے ہمارے ملک میں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔(باقی تفصیلات جاوید چودھری کےکالم میں ملاحظہ کریں )