جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اندھا دھند دوڑ کا کوئی فائدہ نہیں‘ آپ کے اکاؤنٹس میں کیا پڑا ہے‘ آپ کتنی زمین اور  جائیداد کے مالک ہیں‘ آپ کے پاس کس ملک کا پاسپورٹ ہے اور آپ کی پہنچ کہاں کہاں تک ہے یہ سب بے معنی اور بے کار ہے‘جاوید چودھری کے فکر انگیز انکشافات

datetime 3  مئی‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’تھینک یو کرونا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔آپ اگر میرے ہم عمر ہیں تو آپ کو یاد ہو گا ہمارے بچپن میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے‘ پورے محلے میں ایک ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور سارا محلہ فرش پر بیٹھ کر وارث یا ففٹی ففٹی دیکھتا تھا‘ فون بھی ایک ہی ہوتا تھا‘ محلے کی ساری کالز اسی پر آتی تھیں اور ہم بچے ہر کال پر

”ہولڈ کریں“ کہہ کر چاچا اور چاچی کی تلاش میں دوڑ پڑتے تھے اور فون کا سن کر چاچی دوپٹہ اور چاچا دھوتی سنبھالتا ہوا فون کی طرف دوڑ لگا دیتا تھا۔بڑی عید پر پوری گلی میں ایک گائے ذبح ہوتی تھی اورسارا محلہ قصائی کے ساتھ بیٹھ کر تخمینہ لگاتا رہتا تھا گوشت کتنا نکلے گا‘ لوگ گلی کے نلکوں کا پانی پیتے تھے‘ گھروں میں ایک سالن پکتا تھا‘ پورا گھر بھی کھاتا تھا اور ہمسائے بھی اس سے پیٹ بھر لیتے تھے‘سالن مانگنا روایت تھی‘ کوئی بھی کسی سے بھی سالن مانگ لیتا تھا اور وہ خوشی خوشی اسے دے دیتا تھا‘ لوگ ایک دوسرے سے کپڑے‘ جوتے اور سائیکل بھی مانگ لیتے تھے اور عورتیں زیورات بھی ادھار لے کر پہن لیتی تھیں اور ایک دوسرے سے برف بھی مانگی جاتی تھی۔برتن بھی اور پنکھے بھی لیکن پھر زمانہ بدلا اور ہر گھر میں اپنا فون اور اپنا ٹی وی آ گیا‘ لوگوں نے اپنا اپنا سائیکل اور موٹر سائیکل بھی لے لیا‘ سالن بھی زیادہ پکنے لگا اور مانگ کر کھانا بھی جرم بن گیا‘ لوگ پھر اپنے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے‘ وہ زمانہ بھی غنیمت تھا‘ لوگ اپنے گھروں میں ہی سہی لیکن ایک دوسرے سے رابطے میں تو رہتے تھے‘ یہ مل کر ٹی وی دیکھ لیتے تھے‘ یہ ناشتے‘ لنچ یا ڈنر کے لیے میز پر آ جاتے تھے یا پھر جمعہ یا اتوار کو اکٹھے ہو جاتے تھے۔یہ سلسلہ بھی اگرچلتا رہتا تو بھی معاشرہ‘ معاشرہ اور گھر‘ گھر بنے رہتے مگر ہم اس سے بھی چند قدم آگے نکل گئے‘ ہم اپنے اپنے کمروں تک محدود ہو گئے‘ کمروں میں ٹی وی لگ گئے‘ فون موبائل فون بن گیا اور کھانا بھی میز سے ٹرے اور

پلیٹ سے ڈبے میں شفٹ ہو گیا چناں چہ ہماری زندگی کمروں تک محدود ہو گئی‘ ہمیں پہلے ساتھ والے گھر کا علم نہیں ہوتا تھا اور پھر ہم ساتھ کے کمرے سے بھی الگ ہو گئے اور ہم عیدیں بھی سو کر گزارنے لگے‘ یہ لائف سٹائل فطرت کے خلاف تھا چناں چہ قدرت ایکٹو ہوئی‘ کرونا آیا اور ہم ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ہم کمروں سے باہر آ گئے‘ ہم نے بالکونیوں میں بیٹھ کر ہمسایوں کو بھی دیکھنا شروع کر دیا‘

ہمیں معلوم ہو گیا کس گھر میں کون کون سا بزرگ رہتا ہے اور کس گھر میں کس عمر کے کتنے بچے موجود ہیں‘ ہم نے خاندان کے ساتھ گپ لگانا اور قہقہے داغنا بھی شروع کر دیا‘ ہم زندگی کی طرف واپس آ گئے۔آپ اگر میرے ہم عمر ہیں تو آپ نے اپنے بزرگوں کو دوپہر کے وقت گھر آتے‘ مل کر کھانا کھاتے‘ قیلولہ کرتے اور شام کو ڈیوڑھی میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپ لگاتے بھی دیکھا ہو گا۔آپ نے پورے محلے میں

کھانوں کی خوشبو اڑتے اور ہر چھت سے دھوئیں کی لکیر نکلتے بھی دیکھی ہو گی اور آپ نے لوگوں کو لوگوں کے دکھوں میں آنسوؤں اور تسلیوں کا حصہ ڈالتے اور دوسروں کے سکھوں کو بتاشوں کی طرح تقسیم کرتے بھی دیکھا ہو گا اور آپ نے پھر لوگوں کو بدلتے‘ سمٹتے اور دور دور ہوتے بھی دیکھا ہو گا‘

میرا تعلق اس ایج گروپ اور معاشرے کے اس طبقے سے ہے جس نے زندگی کے یہ تینوں شیڈ دیکھے ہیں‘ میں نے فی محلہ ایک ٹی وی اور ایک ٹیلی فون کا دور بھی دیکھا۔میں نے ہر گھر میں فون اور ٹی وی آتے بھی دیکھا اور میں نے آخر میں لوگوں کو کمروں میں سمٹتے اور غرق ہوتے بھی دیکھا اور میں ان خوش نصیب لوگوں میں بھی شامل ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے وقت کو پلٹتے اور واپس آتے بھی دیکھا لہٰذا کرونا

ہمارا بہت بڑا محسن ہے بس اس کا ایک قصور ہے‘ یہ اگر ایک بار موبائل فون بھی بند کرا دیتا تو ہم مزید بہتر زندگی گزار سکتے تھے لیکن اس کے باوجود اتنا بھی غنیمت ہے کہ ہمیں اس وبا نے ایک بار پھر بتا دیا زندگی تھوڑے سے وسائل کے ساتھ بھی گزاری جا سکتی ہے اور یہ زیادہ وسائل کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اس نے ہمیں بتا دیا اندھا دھند دوڑ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ آپ کے اکاؤنٹس میں کیا پڑا ہے‘

آپ کتنی زمین اور جائیداد کے مالک ہیں‘ آپ کے پاس کس ملک کا پاسپورٹ ہے اور آپ کی پہنچ کہاں کہاں تک ہے یہ سب بے معنی اور بے کار ہے‘ زندگی وہ ہے جو آپ آج گزار رہے ہیں‘ کھانا وہ ہے جو آپ کھا چکے ہیں‘ پانی وہ ہے جو آپ نے پی لیا‘ جائیداد وہ ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں اور رقم وہ ہے جو آپ کی جیب‘ آپ کے ہاتھ میں ہے‘ قدرت نے ہمیں یہ بھی بتا دیا دنیا میں صحت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اور صحت کے معاملے میں ہم سب اکیلے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…