کراچی(این این آئی) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ریلیف پیکیج کا اعلان خوش آئند ہے مگر اس کے لئے مختص کی گئی 15 ارب روپے کی رقم ناکافی ہے اور اس منصوبے کے خدوخال بھی مبہم ہیں۔15ارب روپے کے ریلیف میں سے انتظامی و دیگر اخراجات اور نقصانات وغیرہ نکالنے کے بعد فی کس ریلیف 100 روپے تک بنے گا جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبہ پر محاصل میں 200 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہو گاجس سے عوام کی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ریونیو شارٹ فال میں کمی کے لئے حکومت کے پاس منی بجٹ، متعدد اشیاء پر سیلز ٹیکس میں اضافہ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ناروا اضافہ اور نجکاری کے ذریعے آمدنی کے آپشن موجود ہیں جبکہ قانون کے مطابق نجکاری سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ریونیوقرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ایف بی آر نے متعدد اشیاء پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ واپس لینے کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔جن اشیاء پر پانچ فیصد، ساڑھے سات فیصد اور پندرہ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے ان پر سیلز ٹیکس17فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان میں روغنی بیج، کپاس، پلانٹ اینڈمشینری، ڈیری مصنوعات، استعمال شدہ کپڑے اور جوتے، ٹریکٹر، پولٹری کے شعبہ کی مشینری، سی این جی کے شعبہ کے لئے درآمد کی جانے والی ایل این جی، گوشت اورمچھلی وغیرہ شامل ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ صرف مہنگائی ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ معیشت کے تمام اہم اشارئیے مایوس کن ہیں۔ شرح نمو 2.2 فیصد سے کم ہونے کی توقع ہے جو سابقہ ایک دہائی میں سب سے کم ہے جبکہ اس میں مزید کمی کا امکان بھی موجود ہے۔ ڈیڑھ سال میں قرضوں میں 40 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جو ایک ریکارڈ ہے جبکہ سوا تیرہ فیصد شرح سود اور درآمدات میں کمی نے سرمایہ کاری کی زبردست حوصلہ شکنی کی ہے۔
گیس اور بجلی کے ٹیرف میں بار بار اضافہ نے کاروباری برادری کو ہراساں کر رکھا ہے جبکہ بہت سے برآمدکنندگان کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ڈالرکی قیمت بڑھنے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ایکسپورٹ میں تو قع کے برعکس اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ ملک پر عائد قرضوں اور واجبات میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ادھر دعووں کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے جس سے توانائی کے شعبہ کے علاوہ ملکی معیشت کو مزید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جبکہ گزشتہ پانچ سال میں برآمدات میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ان حالات میں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔