کراچی(این این آئی)سپریم کورٹ نے شہر بھر سے کچی آبادیاں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ کچی آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے ملٹی اسٹوری بلڈنگ بناکر وہاں منتقل کیا جائے،شہر میں کچی آبادیوں کی بھرمار ہے،کراچی میں55فیصد کچی آبادی ہے، یہ سب کچھ کے ایم سی ، کے ڈی اے اور ڈی ایچ اے کی ہی مہربانیوں سے ہوا ہے۔جمعہ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی
سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بینچ نے شہر قائد میں سرکاری زمینوں پر قبضے، ان پر عمارتوں اور کالونیاں بنانے سمیت دیگر معاملات پر سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان،، صوبائی حکومت کے نمائندے و دیگر حکام پیش ہوئے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کیاوفاقی حکومت صرف بین بجائے گی؟ طارق روڈ پر صرف 2 ہوٹل اور یو بی ایل ہوا کرتا تھا اب دیکھیں کیا حال ہوگیا ہے ،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تھوڑا وقت دے دیں میں رپورٹ پیش کروں گا ۔چیف جسٹس نے کہا یہ آپ لوگوں کے بس کی بات نہیں ،باہر سے سٹی پلانر بلانا پڑے گا، لائنز ایریا کا حشر برا کردیا ہے، خداد کالونی پر پورا قبضہ ہورہا ہے، یہ سب قائد اعظم کے مزارکے ماتھے کا جھومر بنے ہوئے ہیں۔عدالت نے شہر بھر سے کچی آبادیاں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ لائنز ایریا والوں کو ملٹی اسٹوریز بنا کر بتائیں، قائد اعظم کے مزار کے سامنے فلائی اوور بنادیا ہے اب شاہراہ قائدین سے نظر بھی نہیں آتا ،شاہراہ قائدین کا کچھ اور نام رکھ دیتے اب وہ قائدین کی روڈ تو نہیں رہی ۔اٹارنی جنرل نے کہا یہ معاملہ پل کی وجہ سے نہیں عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے مزار قائد چھپاہے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جہانگیر روڈ والوں کو کہیں اور لے جائیں حکومت اپنی زمین فوری خالی کرائے ،جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے وقت دے دیں اسٹیک ہولڈرز کے
ساتھ کوئی حل نکالیں گے ۔عدالت نے کہا شہری حکومت کام کررہی ہے نہ وفاقی اور صوبائی حکومت کام کررہی ہے، کوئی حکومت کام نہیں کررہی کیا کریں کسے بلائیں ؟ ۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا سندھ حکومت اور ملٹری لینڈ کے ساتھ مل کر بیٹھنا ہوگا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ متبادل کے لیے تو 5ہزار کی جگہ 15ہزار کلیم آجائیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے آپ ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ
اتنے سالوں سے جو کچھ ہوتا رہا ہے اب بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا۔چیف جسٹس گلزار احمدنے کہاکہکچی آبادیاں شہر کے وسط اور دل میں قائم ہیں، غیرقانونی آبادیوں میں بھی یوٹیلیٹیز فراہم کی گئیں ۔ ایڈوکیٹ جنرل نے تجویز دی کہ غیرقانونی تعمیرات کے جائزے کیلئے کمیٹی بنا دیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا آپ وفاقی یا صوبائی افسران پر انحصار نہیں کرسکتے آپ تک صحیح بات نہیں آتی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ
یہ سب خود بخود نہیں ہوتا ، ڈی ایچ اے مین صرف اینٹیں گھر کے باہر رکھ کر دیکھیں، کنٹونمنٹ بورڈ سے جو پلاٹ چاہیں کمرشلائز کرالیں ، ایئرپورٹ کے پاس جس کو چاہیں چار منزلہ عمارت کی اجازت دیں جسے چاہیں نہ دیں۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ کوئی گھر گرا دیا جائے تو مائیں بہنیں سڑکوں پر آجاتی ہیں، جس پر عدالت نے کہا غیرقانونی تعمیرات کی اجازت کون دیتا ہے وہ ذمہ دار ہے ۔شہر قائد میں
سرکاری زمینوں پر قبضے، ان پر عمارتوں اور کالونیاں بنانے سمیت دیگر معاملات پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے شہرقائدکا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسے بنایا جا سکتا ہے،سول انجینئرز،ماہرین اور ٹائون پلانزسے مددحاصل کی جائے،اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا۔جمعہ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل بینچ نے کراچی شہر کا ازسرنو جائزہ لینے سے متعلق معاملے کی سماعت کی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، چیف سیکرٹری سندھ سیدممتازعلی شاہ اور دیگرعدالت میں پیش ہوئے اور اپنے ہی صوبائی اداروں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ اجازت دیں تو ایک پلان دینا چاہتا ہوں، جتنے ادارے ہیں
انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا، سرکاری افسران سے صحیح بات عدالت نے کبھی نہیں آئیگی، اس لیے ایک اعلی اختیاری کمیٹی تشکیل دیدی جائے۔اے جی سندھ نے کہاکہ عدالت ماہرین پرمشتمل اعلی اختیاری کمیٹی بنادی جائے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہاکہ یہ بتائیں، کمیٹی کرے گی کیا ، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ ڈی ایچ اے میں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں
تودیکھیں کیسے پہنچتے ہیں، ڈی ایچ اے ،کنٹونمنٹ بورڈز نے اختیارات اپنے پاس رکھے ،یہ جسے چاہتے ہیں زمین دیتے اور جسے نہ چاہیں نہیں دیتے، کنٹونمنٹ بورڈز ،ڈی ایچ اے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے ہی صوبائی اداروں پرعدم اعتماد کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت پر بھروسہ کیا توکچھ نہیں ہوپائے گا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے،
جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ آپ اگلا ڈی جی ایس بی سی اے لگائیں گے وہ اور 2 ہاتھ آگے ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، دیکھ لیں یہ سب کوئی باہرسے نہیں کر رہا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے، یہ سارے کام تو خود حکومت کے ہیں، اے جی سندھ نے کہاکہ احساس دلانا پڑے گا،کوئی کام نہیں کررہا ، محسوس کرے توعدالت یہ کام کرے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کنٹونمنٹ بورڈمیں گزری کاحال دیکھاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ یہی حالات رہے تو پھر ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کرڈالیں گے، عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی کوئی کام نہیں کررہا، اچھے لوگ بھی ضرور ہیں، اس لیے آپ کوئی بڑاحکم دیں، ایک شخص پیسے جمع کرکے فلیٹ خریدے توکیسے توڑ دیں، فلیٹ میں رہنے والا کہاں جائے گا یہ انسانی معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ نہیں چاہتے ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکلیں توکسی کیلئے نقصان دہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں تو چیف جسٹس نے کہا آپ ووٹ لینے کی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔سلمان طالب الدین نے بتایا ریلوے نے غریب 6ہزارلوگوں کوبے گھر دیا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ
سلمان صاحب ، انہیں بیٹھایاکس نے تھا ، آپ کے پاس وسائل ہیں، سب کر سکتے ہیں مگر کریں گے نہیں تو سلمان طالب الدین نے کہاکہ وفاق نے 100 ارب دینے ہیں، وسائل نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگے گی ، 105 ارب روپے پہلے بھی ملے مگر ایک پائی نہیں لگی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ میں اس شہر میں پیدا ہوا،
بتائیں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھے ہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا۔اے جی سندھ نے کہاکہ مجھے اور انور منصور کو بھی یہی تکلیف ہے، آخراس شہر کاکیاہوگا، افسران کوکہانیاں سناکر چلے جاتے ہیں، سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کوئی گرائونڈ چھوڑا نہ ہی کوئی اسپتال کی جگہ۔
سپریم کورٹ نے شہرقائدکا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسے بنایا جا سکتا ہے اور سول انجینئرز،ماہرین اور ٹان پلانزسے مددحاصل کریں۔سپریم کورٹ نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا کہ اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔
اے جی سندھ سلمان طالب الدین نے کہاکہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہے میں خود اس پربریف کردوں گا، خود بتائوں گا کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پتہ نہیں چل رہا کہ کس پربھروسہ کریں۔خاتون شہری نے کہا کہ یہ کمیٹی کے چکر میں وقت گزارنا چاہتے ہیں، ان کی کمیٹیوں میں تو وہی لوگ ہیں جو یہ سب کررہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سٹی پلانرز کی کوئی کمیٹی ہے ؟ جس پر چیف سیکریٹری نے کہاکہ جی ماہرین کی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے ، ہم نے سفارشات کابینہ کو بھیج دی ہیں مزید وقت لگے گا ۔درخواست گزار نے کہا کمیٹی میں شامل لوگ خود قبضوں میں ملوث ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اب بتائیں کس پر بھروسہ کریں ؟ اب کراچی ری ڈیزائننگ نہیں لکھئے گا بلکہ صرف تجاویز دیں ،
تجاوزات کا مکمل خاتمہ، کچی آبادیوں کی ری سیٹلمنٹ اور متاثرین کی آبادکاری کے حوالے سے سفارشات دیں اور میڈیا کے ذرئعے بھی متعلقہ ماہرین سے سفارشات لیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا نہر خیام پر تعمیراتی سرگرمیوں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو مقدمہ فوری نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا نہر خیام پر تعمیراتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔