لاہور(این این آئی )لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے کے الزام میں گرفتار وکلا ی کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف کیس میں چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
دوڈویژن بنچ کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے اس کی فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورت کو بھجوا چکے ہیں اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت ۔ اس دوران فاضل ججز نے پی آئی سی کے سربراہ کو بھی چیمبر میں طلب کرلیا۔سماعت کے دوران عدالتی ریمارکس میں کہا گیا کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا۔اگر وکلا ء لوگوں کے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں تو اپنے حقوق کے لئے کیوں نہیں کھڑے ہوئے۔ ہم اپنے آپ کو محدود کرکے لوگوں کو بتانا چھوڑ چکے ہیں کہ ہم جج ہیں۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہسپتال میں وکلا ء کو جانے کی ضرورت کیا تھی؟ جو کچھ میڈیا پر ہورہا ہے اور لوگ ویڈیو بناکرچلا رہے ہیں اس کے پیچھے بھی بہت کچھ ہے، معاملات ایک دو دن میں یہاں تک نہیں پہنچے۔عدالت نے کہا کہ جنہوں نے کلنک کا ٹیکہ لگایا وہ دو فیصد ہیں، انہوں نے 100 فیصد وکلا ء کو یرغمال بنا رکھا ہے، ایسے وکلا ء کے خلاف بار نے کیوں کارروائی نہیں کی؟سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ دو فیصد وکلا ء کے عمل سے افسوس یہ ہے کہ ہائیکورٹ کا کوئی جج وکلا ء کا کیس سننے کو تیار نہیں۔بتایا جائے وکلا ء ڈیڑھ گھنٹے تک سڑکوں پر رہے تاہم انتظامیہ نے انہیں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس موقع پر کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بار کی مکمل ناکامی ہے، وکلا ء کے اندرونی احتساب کاعمل سخت کیا جائے گا۔، پی آئی سی میں جو کچھ ہوا تمام بار ایسوسی ایشنز نے مذمت کی، وقوعہ میں 100 سے کم وکلا ء ملوث تھے مگر پولیس تمام وکلا ء کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار وکلا ء کو قانونی امداد فراہم نہیں کرنے دی گئی۔جس پر عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ کو سنجیدہ خطرہ ہے، وکلا ء چھوٹے چھوٹے گروپ میں رہیں، ایک جگہ زیادہ وکلا اکٹھے نہ ہوں، یہ خطرہ ججوں کے لیے بھی ویسا ہی ہے۔ فاضل عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کو فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔