آج کا سب سے بڑا سیاسی سوال ، کیا آزادی مارچ سے کچھ ہوگا؟ مولانا اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں اور ہزاروں جانثار ان کے سامنے ہو ئےتو پھر وہ کیا کریں گے ؟ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے مستقبل کی پیش گوئی کر دی

30  اکتوبر‬‮  2019

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی سہیل وڑائچ اپنے کالم ’’کچھ نہیں ہوگا؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ حکومت اور ریاست کا سادہ جواب ہے کچھ نہیں ہوگا۔ اُنہیں یقین ہے کہ آزادی مارچ با آسانی گزر جائے گا۔ حکومتی عمال کو یہ اعتماد ہے کہ عمران حکومت کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا کیونکہ حکومت اور ریاست میں کوئی دراڑ نہیں البتہ ہلکی پھلکی آندھی اور بارش ہو سکتی ہے۔سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ

تحریک ناکام بھی ہو جائے تو اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ ریشمی رومال تحریک 1913تا 1920تک جاری رہی۔ اس کے نمایاں نام گرفتار ہوئے مگر اس کا اثر اتنا زیادہ ہوا کہ اس تحریک نےدینی مدرسہ دیوبند کو باقاعدہ ایک اینٹی سامراجی سیاسی تحریک میں بدل ڈالا، 100سال گزر گئے مولانا فضل الرحمٰن آج بھی اس لڑی سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1857کی جنگ آزادی ناکام ہوگئی مگر ہندوستان اور پاکستان میں آج بھی حریت پسندوں اور خوشامدیوں کی تقسیم برقرار ہے۔ 1977کی تحریک نظامِ مصطفیٰ کامیاب ہوئی مگر اس سے مکمل ترین جمہوری نظام کا جو بستر لپیٹا گیا وہ آج تک دوبارہ بچھایا نہیں جاسکا، اگر جمہوریت آتی بھی ہے تو نامکمل اور ادھوری۔ اِن مثالوں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جب کوئی مارچ یا تحریک چل پڑتی ہے تو اس کی کامیابی یا ناکامی اہم نہیں رہتی بلکہ پھر زیادہ اہمیت اس کے اثرات کی ہو جاتی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ عالی سیاست کے تمام گُر جانتے ہیں، وراثتی سیاستدان ہیں، اسی لئے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ کر کے انہوں نے دارالحکومت میں بلا روک ٹوک اور فاتحانہ داخلے کا بندوبست پہلے ہی کر لیا ہے۔ مارچ شروع ہونے سے پہلے ان کے بڑے اتحادی میاں نواز شریف کو ریلیف مل گیا۔ ابھی آزادی مارچ پنجاب میں ہے جہاں بظاہر مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ بینک دیگر تمام صوبوں سے کم ترین ہے مگر پھر بھی ہر جگہ ان کا استقبال ہو رہا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ جب پختونخوا کے جلوس پہنچنے کے بعد مولانا اسلام آباد پہنچ گئے اور ہزاروں جانثار ان کے سامنے ہوئے پھر وہ کیا کریں گے؟معاہدے کے مطابق خاموشی سے گھر لوٹ جائیں گے یا پھر تحریک انصاف کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد کی اقتدار گردشوں کی طرف مارچ کریں گے؟

مولانا لاہور کے راستے سے گزر کر اسلام آباد جائیں گے جبکہ ن لیگ کے شہر لاہور میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ میاں نواز شریف کی صحت، ان کے آئندہ پروگرام اور حکمتِ عملی پر ہر جگہ گفتگو جاری ہے۔ صحت کی حالت تشویشناک ہونے کے باوجود میاں صاحب کی لاہوری حسِ مزاح پوری طرح برقرار ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…