اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) گارڈین، بی بی سی نیوز، دی اکانومسٹ، روئٹرز، دی ٹیلی گراف، الجزیرہ، دی نیویارک ٹائمز، سی این این ، واشنگٹن پوسٹ، این ڈی ٹی وی، ٹائمز آف انڈیا، سڈنی مارننگ ہیرالڈ اور اکانومک ٹائمز سمیت کئی عالمی میڈیا ہائوسزکی جانب سے تعریفی کلمات پانےوالے عمران خان 17اگست2018 کو پا کستان کے22ویں وزیراعظم منتخب ہوئےاور اس کے بعد سے اب تک غیرملکی ٹیلی ویژن اور اخبارات کی جانب سے ان کی تعریفیں جاری ہیں۔
روزنامہ جنگ کے مطابق حال ہی میں ایک جیوپولیٹکل ایکسپرٹ اور یوروایشیاءفیوچرتھنک ٹینک کے ڈائریکٹرایڈم گیری نےکہاہےکہ وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت پاکستان اپنی پوزیشن سےامریکا کے سامنے بطور خودمختار ملک کھڑا ہوگیاہے اور ماضی کےمقابلے میں بالکل مختلف نظر آرہاہے۔ ان خیالات کا اظہارانھوں نے ایرانی ٹی وی چینل ’’پریس ٹی وی‘‘ پرکیا، اس کےپریزنٹرزماضی میں برطانوی سیاستدان جارج گیلووےاورلندن کےسابق میئرکین لِیونگسٹن کو پروگرام میں شامل کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے اُس بیان پراظہارِ خیال کرتے ہوئے جس میں انھوں نے امریکا کے ساتھ تعلقات پرپاکستان کےکردار پر افسوس کااظہار کیاتھا، لندن کے کمنٹیٹراور صحافی نے کہاکہ پاکستان امریکا کیلئے ’’کرائے کی بندوق‘‘ کے طورپرمزیدکام نہیں کرےگا۔ گیری نے مزید کہا:’’جب عمران خان پہلی بار اقتدارمیں آئے اور چند ماہ قبل حکومت سازی کی تومیرا مانناہے کہ وہ محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے بہترین سیاسی حکمران ہوں گے۔‘‘ لندن، بیروت، دمشق، کابل اور غزہ سمیت دنیا بھر میں بیوروزکےساتھ پریس ٹی وی نے برطانوی تجزیہ کار پر فوکس کیا:’’ جب سے عمران حکومت میں آئے ہیں توگزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے واقعات سے واضح طورپریہ ظاہر ہوگیاہے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سےانھوں نےچند غلط اقدامات کیے ہیں اور کافی کام درست کیے ہیں۔ اسی دوران انھوں نے ایسا کام کیاجو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ نوآبادیاتی ذہینت جسے سی آئی اےدھوکادےسکتی تھی اس سےوہ امریکاکے سامنے ایک خود مختار ریاست کے طور پرکھڑے ہوئے، جس کے شہری ڈرون حملوں میں مارے جاسکتے تھے اور جس پر امریکا یوں تھوک سکتا تھا کہ وہ نام نہاد امدادجو بظاہر معاوضہ تھا، اس کی بندش ہو اور وہ بھی انتہائی معمولی سےرقم تھی۔‘‘
ایڈم گیری نے مزید کہا:’’ عمران خان درحقیقت اپنی قوم کو ایک ایسی پوزیشن میں لارہے ہیں جو غلامی کی بجائےعلاقائی قیادت کرسکے۔ مستقبل میں اس سے معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے اور سفارتی اثرات بھی مثبت ہی آئیں گے۔ ایک طرح سے ہم پہلے ہی اس کے اثرات دیکھ چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ چند ہفتوں میں ہی تنقید کرنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے بعد اب افغانستان کی جنگ سے نکلنے کیلئے اسلام آباد سے مدد مانگ رہے ہیں یہ جنگ 1980 یا1970کےاوائل میں امریکا نے ہی شروع کی تھی اور 1990کی دہائی میں مختصروقت کیلئےیہ جنگ بظاہرختم ہونےکےباوجود جاری ہے۔