اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اپوزیشن رکن ڈاکٹر عباداللہ کا مائیک مقررہ وقت مکمل ہونے کے بعد بند کرنے پر قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا جبکہ منی بجٹ پر بحث منگل کو بھی جاری رہی جس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے حصہ لیا ۔منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر عباداللہ بجٹ پر تقریر کر رہے تھے ‘ سپیکر نے انہیں بار بار وقت پورا ہونے کے
باعث تقریر مکمل کرنے کو کہا لیکن انہوں نے اپنی بات جاری رکھی جس پر ان کا مائیک بند کردیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے اس پر احتجاج کیا اور اصرار کیا کہ ڈاکٹر عباداللہ کو بات مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر عباداللہ کو تقریر کے لئے 20 منٹ دیئے لیکن انہوں نے تقریر مکمل نہیں کی۔ باقی ارکان نے بھی بات کرنی ہے۔ اس پر اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ سپیکر نے وزیر دفاع پرویز خٹک کو ذاتی وضاحت پیش کرنے کے لئے بات کرنے کا موقع دیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو اپوزیشن کو جواب دینا چاہتا تھا لیکن وہ ایوان سے چلے گئے ہیں اس لئے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس پر سپیکر نے بجٹ پر بحث شروع کرادی۔اجلاس کے دور ان بجٹ پر بحث جاری تھی کہ اپوزیشن نے ڈاکٹر عباداللہ کو مزید وقت نہ دیئے جانے پر اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ اسی دوران رکن قومی اسمبلی ریاض ججہ نے کورم کی نشاندہی کردی تاہم گنتی کرانے پر کورم پورا نکلا جس پر اپوزیشن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔نکتہ اعتراض پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سیّد نوید قمر نے کہا کہ ہمیں سینیٹ کی بجٹ پر سفارشات آج صبح ہی ملی ہیں ٗاتنی جلدی ہم کیسے اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ ابھی صرف یہ پیش ہوئی ہیں۔ وقت دیا جائے کہ اسے پڑھ کر رائے دے سکیں۔ پہلے ہی قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پر بحث جاری ہے وہ مکمل ہو جائے تو اس پر بحث کرلیں گے۔ سپیکر نے کہا کہ ہم نے کل ہی یہ ارکان کو بھجوا دی تھیں۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ ہمیں اعتراض نہیں کہ پہلے اسمبلی بحث مکمل کرلے پھر سینیٹ سفارشات کو زیر غور لے آئیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ
جب یہ اپوزیشن میں تھے تو ایسی باتوں پر لڑتے تھے۔ سپیکر نے کہا کہ ہم پارلیمانی روایات پر چل رہے ہیں۔ چھ دن سے بحث چل رہی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمانی روایات اس کے برعکس ہیں۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ خورشید شاہ کی تجویز سے اتفاق کرلیا ہے اب اس میں کوئی ایشو نہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ تکنیکی معاملہ ہے۔ سپیکر نے ارکان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو گھروں پر سینیٹ کی بحث سفارشات ملی تھیں یا نہیں جس پر اپوزیشن ارکان نے کہا کہ ہمیں نہیں ملیں۔
علی محمد خان نے کہا کہ سینیٹ سفارشات پر بحث کل کرلیں گے۔مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر عباداللہ کی طرف سے ضمنی مالیاتی بل پر اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے پرویز خٹک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں جھوٹ بولنے پر سزا دینی چاہیے‘ کہا گیا کہ جہانگیر ترین کے پاس خیبر پختونخوا میں ٹھیکے ہیں‘ خیبر پختونخوا میں جہانگیر ترین کو ایک بھی ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔ اگر ایک بھی ٹھیکہ ثابت ہوگیا تو میں جرمانہ دینے کیلئے تیار ہوں ٗجہانگیر ترین کے پاس ایک کنٹریکٹ تھا
جو ہمارے دور میں نہیں بلکہ پچھلے دور میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح پی پی ایچ آئی میں جہانگیر ترین کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ جھوٹ پر جھوٹ کا صلہ انہیں الیکشن میں شکست کی صورت میں ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیلٹی سٹورز سے کسی کو نہیں نکالا گیا اور نہ ہی آئی ٹی ٹیچرز کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بورڈ میں وزیراعظم عمران خان کے کزن کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے کزن امریکا کے مشہور اور معروف ڈاکٹر ہیں ٗ
وہ اپنے خرچے سے بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے امریکا سے آتے ہیں۔ وہ تنخواہ بھی نہیں لیتے۔ بورڈ کا کام پالیسی دینا ہوتا ہے۔ اس کے مہینے میں ایک یا دو اجلاس ہوتے ہیں۔ ہم نے بہترین لوگوں کو تعینات کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس ایوان میں روزانہ جھوٹ بولا جاتا ہے۔ میری حکومت پر بھی ابتدا میں اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے تھے کہ یہ ڈلیور نہیں کر رہے لیکن ہم نے ڈلیور کیا۔ ہم نے صحت‘ تعلیم اور پولیس کو بہتر کیا اور
کرپشن پر تالا ڈالا جس کا صلہ ہمیں عوام نے کامیابی کی صورت میں دیا ہے۔ ہم مراعات یافتہ طبقے کے لئے نہیں بلکہ عوام کے لئے کام کرتے ہیں۔ ہم نے کفایت شعاری کا پروگرام دیا ہے اور اس کا صلہ پانچ سال بعد عوام ہمیں دوبارہ بھرپور مینڈیٹ کے ذریعے دیں گے۔متحدہ مجلس عمل کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود نے ضمنی مالیاتی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے نقائص کی نشاندہی اور حکومت سے جواب طلبی اپوزیشن کا حق ہے ٗ بحث کے دوران وزیر خزانہ ایوان میں موجود نہیں تھے
جو سوالات اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے ان میں سے بعض کے جوابات تو دیئے گئے ہیں لیکن بعض وزراء نے ارکان کے سوالوں کے جواب میں ارکان کی ذاتی کردار کشی کی جو قابل مذمت ہے۔ یہ ایوان ہم سب کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترمیمی بل اور معیشت کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم دونوں کے خلاف ہیں۔ ملک میں اسلامی نظام معیشت نافذ ہونا چاہیے۔ جب ہم اسلامی معاشی نظام کا سوال اٹھاتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہماری مجبوریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
سودی نظام معیشت کے خاتمے اور اسلامی معیشت کے نفاذ کے لئے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ جلد آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل میں 31 فیصد ترقیاتی بجٹ کم کردیا گیا ہے جبکہ غیر ترقیاتی بجٹ میں تین فیصد کمی کی گئی ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف نے یہ وعدے کئے تھے کہ وہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرے گی۔ اس سے حکومت کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں میں جو لاوا پک رہا ہے
اگر یہ پھٹ پڑا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی مل کر اس کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے سود کی حرمت واضح ہے۔ گزشتہ 70 برسوں سے ہم سودی معیشت چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوے کئے اور مراد سعید نے اس دولت کی واپسی کا طریقہ کار بھی بتا دیا تھا۔ قوم سے چندہ مانگنے کی بجائے کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت کو وطن واپس لایا جائے۔ بصورت دیگر الزام تراشی پر ایوان سے معافی مانگی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بنوں ایئرپورٹ کا منصوبہ ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے ملک کو چلانا ہے تو ہمیں اپوزیشن لیڈر کی میثاق جمہوریت کی تجویز کی طرف جانا چاہیے اور ملک میں اسلامی نظام معیشت پر اتفاق رائے حاصل کرنا چاہیے۔مولانا اسعد محمود‘ حنا ربانی کھر اور دیگر اراکین کے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے مراد سعید نے کہا کہ ہمارا مؤقف بہت واضح ہے۔ وزیراعظم نے ملک کو مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کی ہے۔ اس سے کسی کو کیا گلہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
کوئی اعتراض کر رہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی کیوں بنایا جارہا ہے‘ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ ملک کا وزیراعظم دو نہیں ایک پاکستان کی بات کر رہا ہے۔ قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ ان لوگوں نے اداروں کے ساتھ کیا کیا ہے۔ باہر سے ایک گورے کو بلا کر پی آئی اے اس کے حوالے کیا گیا جنہوں نے پی آئی اے کا جہاز چوری کیا۔ جب تھر کے بچے مر رہے تھے تو ہمارے وزیراعظم کھانا سرکاری ہیلی کاپٹر میں سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے منگواتے تھے۔
ان لوگوں نے 450 ارب روپے بغیر آڈٹ کے آئی پی پیز کے حوالے کئے۔ آج گردشی قرضے کا حجم 1100 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں شارٹ فال 5 ہزار اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں تاریخ میں سب سے زیادہ 7 ہزار میگاواٹ ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ادوار میں اداروں میں جن لوگوں نے اچھا کام کیا ان کو یا تو دھمکیاں دی گئیں یا فرار ہونے پر مجبور کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق
ان کے دور میں لاکھوں ڈالر منی لانڈرنگ کی رپورٹ آئی۔ ماڈل ٹاؤن میں قوم کی بیٹیوں کو بالوں سے پکڑ کرگھسیٹا اور سامنے سے گولیاں مار دی گئیں اس کے برعکس حکمران اپنی سکیورٹی پر خرچے کرتے رہے۔ اب سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے کی بات کیوں کی جارہی ہے۔ ہم نے ان عالیشان عمارات کے خلاف اقدامات کے اعلانات کئے تھے۔ ان کے وزیراعظم نے نہ صرف 30 کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدیں بلکہ 24 لاکھ روپے کے
کتے بھی خریدے گئے۔ 7 ارب روپے کی لاگت سے ان کے گھروں کی دیواریں اونچی کی گئیں۔ ہم عوام کا پیسہ عوام پر لگائیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس کے دائرہ کار میں توسیع کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ 35 لاکھ نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یومیہ کرپشن کے اعداد و شمار کے حوالے سے بیان ان وقت کے چیئرمین نیب نے دیا تھا۔ جنہوں نے کہا تھا کہ دس ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ اسحاق ڈار نے خود کہا تھا کہ
پاکستانیوں کا 200 ارب ڈالر سوئس بنکوں میں پڑا ہے۔ ہم اس لوٹی دولت کو واپس لانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ کابینہ کے پہلے اجلاس میں اس مقصد کے لئے ٹاسک فورس بنائی گئی۔ ہر اجلاس میں اس پر پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مراد سعید نے کہا کہ گاڑیوں کی نیلامی پر تنقید کی جارہی ہے لیکن صرف میرے محکمے میں 219 گاڑیاں صرف متعلقہ وزیر ‘ سیکرٹری اور اس کا ماتحت عملہ استعمال کرتا رہا ہے جس پر سالانہ تین کروڑ کا پٹرول بھی استعمال ہوتا تھا۔ جب ہم مدینہ اور
اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہم پر تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ مدینہ اور اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہمارا ایمان ہے۔ ہم انصاف کا بہترین نظام قائم کریں گے اور کرپشن پر قابو پائیں گے۔ اب اداروں میں اپنا نہیں اچھا بندہ تعینات ہوگا۔ملک انور تاج کی جانب سے مہمند ڈیم کے لئے پیشگی اہلیت کا نوٹس طلب نہ کئے جانے اور مہمند ڈیم کو فیز ون پروگرام میں شامل نہ کرنے کے توجہ مبذول نوٹس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور انجینئر علی محمد خان نے کہا کہ
مہمند ڈیم کا ورک پراسیس آگے بڑھ رہا ہے ٗ اس ڈیم پر 309 ارب روپے کی لاگت آئے گی اور اس کی پیداواری استعداد 800 میگاواٹ رکھی گئی ہے ٗاس پر گزشتہ حکومت کے دور میں کام شروع ہوا۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے احکامات پر پری کوالیفکیشن سے پوسٹ کوالیفکیشن کی طرف گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نومبر 2017ء میں کوٹیشن جاری ہوا اور 25 کے قریب بڈرز آئے۔ مہمند ڈیم کی تکمیل کے کئی مراحل ہیں۔ فروری 2018ء میں ڈیم کے لئے بولی کی تاریخ ڈیڈ لائن دی گئی
لیکن بڈرز نے کہا کہ وقت بہت کم رکھا گیا ہے اس لئے اس میں توسیع کی جائے جس پر مئی 2018ء کی تاریخ مقرر کی گئی تاہم اس میں بھی توسیع کی گئی اور 26 جون کو حتمی بڈنگ ہوئی جن میں دو بڑے بڈرز ایف ڈبلیو او / پاور چائنہ اور ڈیسکون کی طرف سے بڈنگ آئی جس کے بعد اس کی ایویلیویشن شروع ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ بھاشا ڈیم اس سے بڑا منصوبہ ہے لیکن اس کی بڈنگ ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ سال اپریل کے وسط میں مہمند ڈیم پر تعمیراتی کام شروع ہوگا۔
ملک انور تاج نے کہا کہ ڈیم کے لئے ابھی تک اراضی حاصل نہیں کی گئی اور نہ ہی زمینوں کے مالکان سے رابطہ کیا گیا ہے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے اس پر کام کیا ہے لیکن کام کی رفتار سست رفتار رہی۔ انہوں نے کہا کہ الیکٹرکل اور سول ورک ایک ہی بڈر کر رہا ہے اور انشاء اللہ اپریل کے وسط سے اس پر تعمیراتی کام شروع ہوگا۔اجلا س کے دور ان عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ کراچی اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، ایئرپورٹ اور اس سے ملحقہ کالونی کے علاوہ
کہیں بھی بجلی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کل بھی اس معاملے پر ایوان میں بحث ہوئی ہے جس پر وزیر مملکت عمر ایوب نے کہا کہ انہوں نے کچھ دیر پہلے متعلقہ حکام سے بات کی ہے اور انہیں مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ کسی وزارت کا ایک وزیر ہوسکتا ہے اور ایک وزیر مملکت ‘ ایک ہی وزارت کے دو مکمل وزیر نہیں ہوسکتے۔ سپیکر نے کہا کہ آپ اس پر توجہ دلاؤ نوٹس لے آئیں یہ نکتہ اعتراض نہیں بنتا۔
وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھ لیں گے، اگر قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تو اس کا نوٹیفکیشن آجائیگا۔اجلاس کے دور ان عباد اللہ خان نے توجہ دلاؤ نوٹس پر یہ معاملہ اٹھایا اور حکومت پر اس منصوبے کے حوالے سے تنقید کی جس پر وزیر مواصلات نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ میں کوئی ذاتی حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر اس ایوان کو حقیقت سے آگاہ نہ کروں تو یہ اس ایوان کی توہین ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ٹھیکہ عباد اللہ خان کے بھائی کو ملا ہے۔ پی ٹی آئی کے مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بھی عباداللہ خان کی طرف سے تنقید پر احتجاج کیا جبکہ عباداللہ خان نے ذاتی وضاحت پر کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت بے شک ہمیں ٹھیکے دیئے جانے کی نیب سے تحقیقات کرالے ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ ضمنی مالیاتی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ اسد عمر جیسے شخص ہیں ہماری بڑی توقعات ہیں لیکن انہوں نے روایتی بجٹ ہی دیا۔ جو وعدے کئے تھے وہ کیا ہوئے، قول و فعل میں تضاد نظر آرہا ہے‘ جن ڈائریکشنل چینجز کی بات کی جاتی تھی وہ کہاں ہیں، اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنایا جارہا‘ ہم نے مثبت روایات ڈالی تھیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کریں گے‘ میں بھی وزیر خارجہ رہی ہوں‘ ہم بھی اکانومی میں سفر کرتے تھے لیکن ڈھنڈورا نہیں پیٹتے تھے۔ حکومت اگر کچھ مثبت کرے گی تو ہم ساتھ کھڑے ہوں گے۔ پبلک پی ایس ڈی پی کا 4 ٹریلین کا تھرو فارورڈ ہے‘ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔ حکومت نے کہیں بجٹ میں نئی بات نہیں کی۔ یہ بجٹ روایتی سوچ اور طریق کار ہی کی عکاسی کرتا ہے۔سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اپوزیشن کو دی لیکن اب تحریک انصاف حکومت پی اے سی کی کمیٹی کی چیئرمین شپ اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جو درست نہیں۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ وزیر خارجہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر انگریزی زبان میں کرنی چاہیے تھی تاکہ عالمی رہنماؤں کو سمجھ آسکتی کہ پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے کیا مؤقف ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی میں پارلیمانی روایات کی پاسداری کرائیں۔ وزیر مواصلات کو ذاتی وضاحت پیش کرنے کے لئے طویل وقت دیا گیا۔ سپیکر وزراء کو بتائیں کہ خود کو نکات تک محدود رکھیں جس پر سپیکر نے وزیر مواصلات کو ہدایت کی کہ فنانس بل کے حوالے سے بات کریں۔