اسلام آباد (آن لائن )عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے اداروں نے پاکستان کو خبر دار کیا ہے کہ پاکستان دنیا کے اْن 10 ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، جنہیں سخت ماحولیاتی تغیرات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی زمینی، سمندی اور فضائی الودگی نے پورے ایکوسسٹم کو متاثر کیا ہے اور یہ ملک دنیا کے اْن بارہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پورے ایکو سسٹم کو سخت خطرات لاحق ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان طویل عرصہ سے موسمی تغیرات کی لپیٹ میں ہے۔ ایک طرف تو مون سون بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری طرف سخت موسموں کی پیشین گوئیاں، کبھی صدیوں سے قائم گلیشیئرز پگھلنے کی وارننگز ہیں تو کبھی ہیٹ وویو اور اسموگ جیسے مسائل کا سامنا۔کراچی کے شہریوں نے تو موسمی تغیر کی واضح مثال ہیٹ ویوو کی شکل میں دیکھی ہے، جب کئی ہزار شہری حبس اور لْو برداشت نہیں کرسکے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔پاکستان ان دس مملک میں بھی شامل ہے جن کی موسمیاتی تبدیلی کے حولے سے الگ وزارت بھی موجود ہے تاہم وزات مومیاتی تبدیلی و رتعغیرات ہونے کے باوجود یہ وزارت مکل میں ماحولیات الودگی پر اس طرح سے کامیاب نہیں ہو سکی رواں سال موسمیاتی تبدیلوں کے باعث معمول کے مطابق بارشیں نا ہوئیں جس سے ملک میں پہلی مرتبہپانی کا شدید بحران پیدا ہوا ہے ملک کے بڑے ڈیم ڈیڈ لویل پر پہنچ گئے ۔ارسا کے مطابق اگر جلد ہی ملک میں نئے ڈیم تعمیر نا کیے گئے تو آنے والے سالون میں پانی کے بحران پر قابو پانا مشکل ہو جائیے گا موسمیاتی تبدیلی کے باعث بلوچستان سمیت ملکی کے اکثر حصے خوشک سالی کا شکار ہیں موجودہ حکومت کے لئے موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا چلنج بن چکا ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے محکمہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق اس وقت کلائمیٹ جینج کے حوالے سے قومی پالسی موجود نہیں
جس وجہ سے صوبائی حکومتیں وفاق کے سے تاون نہیں کرتیں جس پر سینٹ کی قائمہ کمٹی برائے کلائمیٹ چینج نے تمام صوبائی حکومتوں کو اگلیاجلاس میں طلب کر لیا ہے تاکہ اس انتہائی اہم قومی مسئلہ پر مل کر کوئی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ اس خطرناک صورت حال پر قابوپانے میں ابھی تک کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکی ملک میں تیزی سے بڑہتی ہوئی آبادی کے سبب نئی ہاوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں نئے درخت لگانے کے بجائے پرانے درختوں کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے
دوسری جانب ہمارے سمندر اور دریا بھی زہریلے پانیوں میں بدل رہے ہیں جس کا انکشاف قومی اسمبلی اورر سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں بار بار ہو چکا ہے پارلیمنٹ میں متعلقہ حکام بریفینگ دیتے ہوئے یہ بھی بتا چکے ہیں کہ روزانہ ٹنوں کے حساب سے کچرا سمندر برد کر دیا جاتا ہے جس میں بڑی تعداد پلاسٹک کے کچرے کی ہوتی ہے ملک می ٹنوں کے حساب سے پیدا ہونے والا پلاسٹک کا کچرا اس ماحولیاتی آلودگی کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ 60 کی دہائی سے عام ہونے والا پلاسٹک بڑھتے بڑھتے 300 ملین تک جا پہنچا ہے،
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس کا استعمال ہر سال 3 گنا اضافے کے ساتھ بڑھ رہا ہے، لیکن پاکستان پلاسٹک مینوفیکچر ایسوسی ایشن کے مطابق ہمارے ہاں ہر سال 7 سے 9 فیصد کے حساب سے پلاسٹک کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ایک عام پاکستانی کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال 80 کی دہائی میں آیا او ر ابدوسرے مملک کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک سستا، ہلکا اور پائیدار ہونے کی وجہ سے لازمی جز بن چکا ہے اس میں آئے راز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے اب گھروں سے لے کر دفاتر تک ہر جگہ پلاسٹک کی اشیاء ضرور ملیں گی،
چاہے وہ فائل کور ہو یا پین، ہاتھ میں پکڑا موبائل کور ہو یا لنچ باکس۔ یہ ہی نہیں بلکہ ہمارے باورچی خانوں کا 70 سے 80 فیصد سامان پلاسٹک کا ہے، جن میں مصالحوں کے ڈبے، پانی کے جگ اور گلاس، کھانے کی پلیٹیں اور دیگر اشیاء شامل ہیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف رواں برس اپریل کے مہینے میں تقریباً 2 کروڑ 6 لاکھ روپے کی پلاسٹک کی اشیاء کی خرید و فروخت کی گئی۔ اس میں ربڑ سے بنی اشیا شامل نہیں ہیں۔پلاسٹک کی ایک خوبی اس کا ری سائیکل ہونا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی رواج نہیں اور اب ڈسپوزبل پلاسٹک مصنوعات سے ہمارے ماحول کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے۔ صرف کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہونے والا پلاسٹ 31.15 فیصد ہے، جس میں پلاسٹک کی بوتلیں اور کین شامل ہیں اور دنیا کے پیدا کردہ 8 ملین ٹن پلاسٹک کچرے میں سے صرف 9 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔ 12 فیصد زمین میں دفن ہوجاتا ہے اور باقی 79 فیصد سمندر میں پھینک دیاجاتا ہے اور اگر اسی رفتار کے ساتھ پلاسٹک کو سمندر برد کیا جاتا رہا تو 2025 میں سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔کچرے کو سمندر برد کرنے سے سمندر حیات کو شدید خطراط لحاق ہیں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلو ڈبلو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے ہاں ریسائیکلنگ پلانٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا شدہ پلاسٹک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ حکومتی سطح پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں اور کچرے کے ڈھیر کے ڈھیر سمندر میں ڈال دیئے جاتے ہیں جبکہ فیکٹریوں کا تمام فضلہ بھی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں کے ذریعے ہمارے سمندر تک پہنچ جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے سمندر آلودہ ترین ہو چکے ہیں اگر اسی رفتار کے ساتھ پلاسٹک کو سمندر برد کیا جاتا رہا تو 2025 میں سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔