اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جنگ و جیو نیوز کے معروف صحافی اعزاز سید اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ اکیس نومبر دوہزار دو کو اسلام آباد پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔ طاقتور فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے تھے اور اسی کی روشنی میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارلیمنٹ کے ایوان میں کارروائی جاری تھی۔ مسلم لیگ ق نے
کمپنی کی مینجمنٹ کے بعد ملک بھر میں اکثریت حاصل کی تھی اور میر ظفر اللہ جمالی مسلم لیگ ق کے نامزد وزیراعظم تھے جبکہ متحدہ مجلس عمل نے مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپارٹی نے شاہ محمود قریشی کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کررکھا تھا۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایوان کے اندر گھنٹیاں بجوائیں اور اعلان کیا گیا کہ ارکان قومی اسمبلی اپنے اپنے امیدوار کے حق میں دائیں اور بائیں جانے والی گیلریوں میں جائیں تاکہ ارکان قومی اسمبلی کی گنتی عمل میں لائی جاسکے اور پتہ چلے کہ کونسے امیدوار کو لیڈر آف دا ہائوس یا وزیراعظم بننے کے لیے کتنے ارکان نے ووٹ دیا ہے ۔ مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ارکان اس عمل سے قبل چار چار اور پانچ پانچ کی ٹولیوں میں ایوان سے ملحقہ ایک گیلری میں گئے جہاں راولپنڈی میں تعینات سینئر پولیس افسر اسرار احمد ، ایک خفیہ ادارے کے طاقتور افسر کے ساتھ موجود تھے۔ منتخب ارکان اسمبلی مذکورہ طاقتور افسر سے پوچھتے کہ وہاسپیکر کی طرف سے گھنٹیاں بجنے کے بعد کونسی گیلری میں جائیں۔ حالانکہ اس وقت کی کنگز پارٹی کے ارکان پریہ بات واضح تھی کہ میر ظفر اللہ جمالی کو ہی ووٹ دینے ہیں مگر عین آخری وقت پر بھی انہیں مذکورہ طاقتور افسرسے ہدایت لینے کا کہا گیا تھا۔ ارکان آتے انہیں جمالی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے کہا جاتا اور وہ متعلقہ گیلری میں چلے جاتے۔
جب ارکان پارلیمنٹ کا آخری گروپ ہدایت لینے آیا تو مذکورہ افسر نے ایک رکن کو ہدایت کی کہ وہ جمالی کوووٹ دینے متعلقہ گیلری میں جائے اور باقی تین یا چار کو ہدایت کی گئی کہ وہ جمالی کے مخالف کیمپ میں چلے جائیں۔ یہ دیکھ کر مذکورہ افسر کے ساتھ بیٹھے پولیس افسر اسرار احمد نے پوچھا کہ یہ آپ نے کیوں کیا؟ “اس طرح تو آپ کے اپنے چنے ہوئے جمالی کو صرف ایک ووٹ کی
اکثریت سے وزارت عظمیٰ۱کا عہدہ ملے گا”۔اسرار احمد کے اس سوال کے جواب میں مذکورہ طاقتور افسر نے تاریخی فقرہ کہا ، ” ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ جمالی کو یاد رہے کہ اصل میں وہ وزیراعظم نہیں، ہم اسے کسی بھی وقت اتار سکتے ہیں ۔ اگر وہ چوں چراں کرے بھی تو مزاحمت کے قابل نہ ہو”۔ مطلب واضح تھا کہ سیٹرھی لگانے والوں نے سیڑھی کھینچنے کا بھی بھرپور بندوبست کررکھا تھا۔
اقتداردینے والے سیڑھی کھینچنے کا بندوبست سیڑھی دیتے ہوئے ہربار کرتے ہیں۔عام انتخابات کے نتائج دیکھنے کے بعد مجھے سینئر پولیس آفیسر اسرار احمد کی آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے اس واقعے کی رہ رہ کر یاد آئی ۔ اسرار احمد آجکل لاہور میں ریٹائرمنٹ کے بعد علالت کی زندگی گزاررہے ہیں۔آج انتخابات میں عمران خان کو دیگر جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہوئی ہے ۔
عمران خان کا اپنا کرشمہ بھی تھا لیکن ان کے لیے کچھ طاقتوں نے سیڑھی کا بندوبست بھی کیا تھا۔ ایمپائر نے مخالف جماعت مسلم لیگ ن کے خلاف توہین رسالت، غداری اور کرپشن جیسے کارڈ عوام کو د کھا کر اسے مکمل طور پر میدان سے باہر کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر اس کے باوجود یہ جماعت پینسٹھ سے زائد نشستیں لیکر دوسرے نمبر پر آئی۔ گو کہ یہ کارکردگی بھی بری کارکردگی نہیں۔
تاہم اب عمران خان واضح طور پر نئی حکومت کے وزیراعظم بنتے نظر آرہے ہیں۔ مگرجیسا ہوتا ہے اس بار بھی بالکل ویسا ہورہا ہے۔ سیڑھی لگانے والوں نے ان کے لیے بھی بندوبست کررکھا ہے۔اول یہ کہ عمران خان واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے ۔ انہیں سادہ اکثریت کے لیے آزاد امیدواروں یا دیگر سیاسی عناصر کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔
کچھ اقتدار کی خواہش میں خود آن ملیں گے یا کسی کے اشارے پر ساتھ آجائیں گے ۔ مگر جونہی عمران خان ملک کی اصل طاقتور قوتوں کی منشا کے بغیر کوئی کام کرنے کی ٹھانیں گے ، انہیں اشاروں کنایوں میں سمجھا دیا جائے گا ۔ نہیں تو پائوں کے نیچے سے سیڑھی کھسکا دی جائے گی تاکہ عمران خان دھڑام سے نیچے آن گریں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے نوازشریف دھڑام سے سیدھے جیل میں جا پھنسے۔
سیڑھی ایوان پارلیمنٹ سے ہی نہیں ۔ ایوان عدل سے بھی کھینچی جاسکتی ہے ۔ اگر آپ کو پتہ نہیں تو آپ کو یاد کرادیتا ہوں جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالوہاب بلوچ نے اسلام آباد ہا ئیکورٹ میں عمران کی مبینہ بیٹی ٹیریان کے بارے ایک رٹ پٹیشن بھی کررکھی ہے جسکی سماعت یکم اگست کو ہوگی ۔ اس اہم ترین کیس کی سماعت کے لیے بنچ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس حامد فاروق شامل ہیں۔ یہ وہ کیس ہے جس کی تلوار عمران خان کے سر پر لٹکتی رہے گی اورنجانے کب چل بھی جائے۔