چترال(سی پی پی) دریائے چترال میں مردہ گھوڑا، مردہ چوزے اور مرغیوں کے فضلہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے دریا کا پانی نہ صرف آلودہ بلکہ ان مردار جانوروں کی وجہ سے زہریلا بنا ہوا ہے جبکہ اسی پانی کو نیچے جاکر لوگ کھانا پکانے اور پینے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ دریائے چترال میں روزانہ منوں کے حساب سے لوگ حاص کر مرغیاں بیچنے والے دکاندار مرغیوں کا فضلہ، گندگی اور گلی سڑھی سبزی ، پھل وغیرہ ڈالتے ہیں جس
کی وجہ سے دریا کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اب لوگوں نے موقع غنیمت جان کر اس میں اپنے مردہ جانور ڈالنا بھی شروع کیا۔دریا کے کنارے کاروبار کرنے والے ایک دکاندار محمد افضل نے بتایا کہ دریا میں مرغی فروش اپنے دکانوں میں ذبح ہونے والے مرغیوں کا فضلہ (آنتیں) وغیرہ ڈالتے ہیں جو کنارے پر رہ کر نہایت بدبو کا باعث بنتا ہے اس بد بو کی وجہ سے ان کا جینا حرام ہوچکا ہے۔ مرغیوں کے بچے کچے فالتو تکڑے، فضلہ اور باقیات کو یہ دکاندار شام کے بعد اندھیرے میں چپکے سے لاکر دریا میں گراتے ہیں مگر بعض اوقات وہ کنارے پر پھنس کر رہ جاتا ہے جس کی تعفن کی وجہ سے راہگیر اس راستے سے نہیں گزرسکتے۔ان دکانداروں نے یہ بھی الزام لگایا کہ تحصیل میونسپل انتظامیہ میں سو کے لگ بھگ 110 ملازمین ہیں جن میں کثیر تعداد میں صفائی کرنے والا عملہ بھی ہے مگر زیادہ تر ملازمین یا تو اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں یا گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں اور جب وزیر اعلےٰ، وزیر اعظم یا کوئی وی آئی پی شحص چترال آتا ہے تو صرف اسی دن سڑک کے کنارے پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے تھوڑا بہت صفائی کی جاتی ہے اور عام دنوں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دریائے چترال میں لیٹرینوں کی گھٹر لائن کا پائب بھی براہ راست آکر
گرتا ہے اور بیت الحلاء کا سارا گند بھی سیدھا دریا میں گر کر اس کے پانی کو آلودہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں دریائے چترال کے کنارے متعدد مستری حانے، سروس اسٹیشن، ورکشاپ ہوٹل، مکانات وغیرہ موجود ہیں جن کی تیل آلودہ پانی اور انسانی فضلہ بھی دریائے چترال میں گرتا ہے جس پر انتظامیہ نے چپ کی سادھ لی ہوئی ہے۔ چیو پل سے لیکر مین بازار تک دریا میں کھلے عام لوگ گندگی ڈالتے ہیں مگر ان کو کبھی نہیں روکا گیا۔علاوہ ازیں دروش
، چترال اور دیگر دیہات میں دریا کے کنارے بیت الحلاء بنائے گئے ہیں جن میں سے روزانہ سینکڑوں لوگ اپنی حاجت پورا کرتے ہیں اور یہی انسانی فضلہ سیدھا دریا میں گرتا ہے جو آگے جاکر اسے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس زہر آلودہ پانی کی وجہ سے لوگ ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال منہاس الدین سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے یقین دہانی کی کہ اب چیف سیکرٹری اعظم خان کے ہدایت پر
میونسپل انتظامیہ کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا ڈیوٹی صحیح طریقے سے کرے اور روزانہ کے بنیاد پر شہر کی صفائی کرے۔ اب معلوم نہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کیونکہ ابھی تک تو چترال میں صفائی کا کوئی بندوبست نظر نہیں آیا کیونکہ ہسپتال کے ایمبولنس میں مریضوں کی بجائے گندگی ڈالتے ہوئے باہر پھینکا جاتا ہے۔