برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں پاکستان کے قومی شاعر اور فلسفی علامہ اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین اپنی دینا واڈیا سے ملاقات کی کہانی سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے ڈر ڈر کر دینا واڈیا سے قائداعظم اور اپنے اختلافات کے بارے میں پوچھا تھا تو انھیں سخت جواب ملا۔یوسف صلاح الدین کہتے ہیں کہ دینا واڈیا نے ان کا سوال مکمل ہونے
سے پہلے ہی بات کاٹ دی اور یوسف کو مخاطب کر کے بولیں: ’نوجوان، ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمام زندگی میں میرا اپنے والد سے محض ایک ہی بات پر اختلاف ہوا تھا اور وہ تھی میری شادی۔‘یوسف کہتے ہیں کہ دینا واڈیا کی باتوں سے ان کے والد کے لیے ان کا پیار اور احترام جھلکتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب پہلی مرتبہ جناح ان سے ملنے دہلی آئے تو بچوں کے لیے بہت سے تحائف ساتھ لائے۔جاتے وقت ان کے نواسے نے ان کی جناح کیپ پکڑ لی تو انہوں نے یہ کہہ کر وہ اسے تھما دی کہ ’او کے ینگ مین یو کِیپ اِٹ۔‘ یعنی ’نوجوان اب یہ ٹوپی تمہاری ہوئی۔‘ دینا نے کہا کہ ان کے بیٹے نے وہ آج تک سنبھال کر رکھی ہے۔بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی دینا واڈیا نے کبھی پاکستان میں رہائش اختیار نہیں کی۔ وہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی شادی کر کے بمبئی چلی گئیں تھیں، جس کے علاوہ ان کا زیادہ تر وقت برطانیہ اور امریکہ میں گزرا۔پاکستان وہ محض دو یا تین بار آئیں۔ پہلی دفعہ سنہ 1948 والد کی وفات پر اور پھر ایک آدھ بار پھوپھی فاطمہ جناح سے ملنے۔ تاہم سنہ 2004 میں پہلی مرتبہ اس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کی دعوت پر پاکستان اور انڈیا کا کرکٹ میچ دیکھنے آئیں اور چند روز قیام کیا۔اس دورے کے دوران وہ اپنے والد کی قبر پر بھی گئیں جہاں یادداشتوں کی کتاب
میں لکھا ان کا یہ جملہ کافی جانا پہچانا ہے کہ ’خدا میرے والد کے پاکستان کا خواب پورا کرے۔‘دینا واڈیا دانستاٌ میڈیا سے دور رہنے والی خاتون تھیں اور خصوصاٌ پاکستان میں ان کی شخصیت کے حوالے سے محض تاثرات پائے جاتے ہیں، زیادہ کوئی نہیں جانتا۔یوسف صلاح الدین ان گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں جنھیں دینا واڈیا کے آخری دورۂ پاکستان کے دوران ان سے ملاقات کا
موقع ملا۔انھوں نے محمد علی جناح کی صاحبزادی کو لاہور میں شاہی قلعے کے قریب واقع اپنی حویلی میں کھانے پر مدعو کرنا چاہا مگر دینا واڈیا نے قریب ہی واقع فوڈ سٹریٹ کے ایک مقبول روایتی ریستوران میں جانے پر اصرار کیا جہاں یوسف صلاح الدین نے ان کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام کیا۔بی بی سی سے بات گفتگو کے دوران اس ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے یوسف صلاح الدین کہتے ہیں کہ
دینا واڈیا ان سے اور ان کے خاندان کی تاریخ سے بخوبی واقف تھیں اور دونوں کی خوب بےتکلف ملاقات ہوئی جسے وہ آج بھی اسی گرم جوشی سے یاد کرتے ہیں۔’مجھے تو اسی طرح لگا جیسے میں قائداعظم کے پاس ہی بیٹھا ہوں۔ ایک تو ان کی شکل کی مشابہت اتنی تھی اور دوسری ان کی وہی اپنے والد والی گرج دار آواز جو ہم نے ریڈیو پر سنی ہوئی ہے۔‘یوسف کہتے ہیں وہ اپنی زندگی
میں لیڈی ڈیانا سے لے کر ملکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر سے کافی شاہی خاندانوں کے افراد سے مل چکے ہیں تاہم دینا واڈیا جیسی ’بہترین شخصیت‘ کی حامل خاتون سے وہ زندگی میں کبھی نہیں ملے۔’بہترین شخصیت، تیز چبھ جانے والی نظریں اور ان کے والد میں جو ایک رعب تھا، وہ ان میں بھی نظر آتا تھا، جبکہ اس وقت ان کی عمر 80 برس سے زیادہ تھی۔‘محمد علی جناح سے ان کی مشابہت
اس قدر تھی کہ یوسف کہتے ہیں فوڈ سٹریٹ میں ریستوران کے باہر بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے ان کے پاس سے تین خواتین گزریں تو انھیں دیکھ کر فوراٌ رک گئیں۔’وہ لازماٌ فوراٌ انھیں پہچان گئی ہوں گی۔ وہ رک کر دیکھتی رہیں اور پھر اس قدر جذباتی ہوئیں کہ آنکھوں میں آنسو لیے بھاگ کر وہاں سے چلی گئیں۔ ان کو شاید سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔‘اس کو دیکھ کر دینا واڈیا
افسردہ ہو گئیں۔ اسی ماحول میں یوسف کہتے ہیں انھوں نے کہہ ہی دیا کہ یہ پاکستان آپ کے والد نے بنایا اور یہ ایک بہترین تحفہ ہے ہمارے لیے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اسے خراب کر دیا ہے۔ ایسا تو اس ملک کے لیے جناح کا وژن نہیں تھا۔’انھوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں کہ نہیں نہیں ایسا مت کہو۔‘وہ کہتے ہیں دینا واڈیا کو ان کی یہ بات قطعی پسند نہیں آئی۔
حالانکہ پاکستان میں اس نوعیت کی باتیں عام طور ہو جاتی ہیں کہ ہم نے جناح کے پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے۔