وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے حکومت سے باقاعدہ چھٹی لی‘ کمرشل فلائیٹ پر ذاتی ٹکٹ خریدا‘ اکیلے سفر کیا‘ لندن میں لائن میں لگ کر امیگریشن کرائی‘ اپنا بیگ خود اٹھایا‘ سفارت خانے کے کسی افسر سے کوئی پروٹوکول نہیں لیا‘ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کی‘ انڈر گراؤنڈ ٹرین میں عام مسافروں کے ساتھ سفرکیا‘ ذاتی جیب سے رہائش لی اور حسن نواز کے دفتر میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی‘
میں اس سادگی اوراس طرز عمل پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ قوم مدت سے اپنے لیڈروں سے اس قسم کی سادگی کی توقع رکھتی تھی‘ کاش ملک کے پکے وزیراعظم اس عارضی وزیراعظم سے یہ روایات مستقل حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی مجھے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت سے ایک شکوہ بھی ہے‘ آپ کو یاد ہوگا جب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو دبئی میں تھے اور یہ وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزراء کو میٹنگ کیلئے دبئی طلب کر لیتے تھے تو اس وقت پاکستان مسلم لیگ کی قیادت یہ اعتراض کرتی تھی یہ لوگ دبئی سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں‘ یہ اس قدم کو غیر جمہوری اور غیر اخلاقی بھی قرار دیتے تھے‘ یہ لوگ عمران خان پر بھی یہ الزام لگاتے تھے‘ یہ بنی گالا سے کے پی کے حکومت چلا رہے ہیں‘ یہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بنی گالا بلا کر احکامات دیتے ہیں اور یہ کبھی ایم کیو ایم کو بھی یہ طعنہ دیتے تھے کہ یہ پارٹی ایک برطانوی شہری لندن میں بیٹھ کر ٹیلی فون کے ذریعے چلا رہا ہے لیکن آج وہی مسلم لیگ ن یہ تینوں غلطیاں کر رہی ہے‘ میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں‘ یہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم وزراء کو لندن بلا لیتے ہیں اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کو ایک برطانوی شہری حسن نواز کے آفس میں ملتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ آپ آج غلط ہیں یا پھر آپ ماضی میں غلط تھے‘ آپ اگر ماضی میں غلط تھے تو پھر آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی تینوں سے معافی مانگنی چاہیے۔