اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر احتساب عدالت کی سزا کیخلاف دائر اپیلوں کو خارج کردیا۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے
سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیلوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ نواز شریف واپس آئیں یا حکام کی جانب سے گرفتار کیے جائیں تو اپیل بحالی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔اپیلیں خارج کرنے حوالے سے عدالت نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو پہلے ہی عدالتی مفرور قرار دیا جا چکا ہے اور ان کے مفرور ہونے کی وجہ سے درخواستیں خارج کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔عدالت نے کہا کہ احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کو دی گئی سزا بحال رہے گی تاہم وہ واپس آکر اپیل بحالی کی درخواست دے سکتے ہیں۔خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال اور العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال کی سزا سنائی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز عدالتی معاون اعظم نذیر تارڈ اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل جہانزیب بھروانہ کے دلائل مکمل ہونے پر نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت جاری رکھنے یا خارج کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں کے حوالے سے جسٹس عامر فاروق نے گزشتہ روز سماعت کے دوران کہا تھا کہ شریک ملزمان کی اپیلوں میں وکلا موجود ہیں جو کیس میں دلائل دیں گے، انہوں نے صرف اپنے مؤکل کی حد تک دلائل
دینے ہیں، اگر انہیں سن کر کوئی فائدہ اپیل کنندگان کو ملتا ہو گا تو عدالت وہ دے گی، نواز شریف کی دو اپیلیں ہیں، ایک میں شریک ملزمان بھی ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں صرف نواز شریف کی اپیلیں خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی
جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ
پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو
ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا
فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی
آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔جس پر 6 جولائی
2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو
العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔