اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی انصار عباسی روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کیا میڈیا میں جھوٹ نہیں بولا جاتا؟ کیا فحاشی و عریانیت یہاں نہیں پھیل رہی؟ کیا قوم کی بیٹیوں کو نچایا نہیں جا رہا؟ کیا ہماری عدالتیں اور قانون مظلوم کے بجائے ظالم کے حق میں نہیں؟ کیا ہم نے حرام کو حلال پر ترجیح نہیں دی؟ کیا ہم نے اپنے رب کو ناراض نہیں کیا؟ کیا ہمارے کاروبار میں سود کا عمل دخل نہیں؟
کیا یہاں ہر طاقتور ظالم نہیں بنا ہوا؟ اگر مولانا نے کسی میڈیا ہائوس یا میڈیا سے متعلق جھوٹ بولنے کی بات کی اور اُس میڈیا مالک کا نام نہیں لیا تو اُس میں اُنہوں نے ایسا کیا جرم کر دیا کہ جس کے لیے اُنہیں معافی مانگنا پڑی۔مولانا سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اُن کی کہی گئی کسی بات سے یا اُن کے کسی مخصوص طرزِ عمل پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مجھے مولانا کا ٹی وی ٹاک شوز کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا اچھا نہیں لگا۔ اُن کا جس طریقے سے خصوصاً سوشل میڈیا پہ مذاق اڑایا گیا وہ بھی انتہائی غیر مناسب تھا۔ حتیٰ کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے اُن پر طنز کے تیر چلائے۔ مولانا نے تو بغیر بحث کیے میڈیا والوں سے معافی مانگ لی لیکن کیا جنہوں نے اُن کے بارے میں نازیبا باتیں کیں، اُنہوں نے معافی مانگی یا اُن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا؟کیا ہم میڈیا والوں میں بہت سے ایسے نہیں جو جھوٹ بولتے ہیں؟ جو جھوٹے الزامات لگاتے ہیں؟ دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، فتنہ بازی اور شر انگیزی تک کرنے سے باز نہیں آتے۔ بحیثیت معاشرہ جھوٹ تو ویسے ہی ہم میں بہت عام ہے لیکن میڈیا تو سچائی کا علمبردار ہوتا ہے اور اس لحاظ سے میڈیا سے سچ کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔ مولانا نے اگر کسی میڈیا مالک کا نام نہیں لیا تو ہم بھی تو بہت سے نام نہیں لیتے اور کئی بار سچ جانتے ہوئے بھی سچ نہیں بولتے۔ جو کچھ میڈیا پر گزر رہا ہے، کیا اُس کے متعلق ہم نے سچ بولا؟
جس طرح گزشتہ چند سالوں میں سیاست نے کروٹیں کھائی ہیں، بہت کچھ جانتے ہوئے بھی کیا ہم نے حقیقت اور سچائی عوام کے سامنے رکھی؟ ہو سکتا ہے کوئی ایک دو نے کسی حد تک بات کی بھی ہو لیکن میڈیا کی اکثریت تو وہی سچ بولتی رہی جو سچ اُسے بولنے کے لیے کہا جاتا رہا۔ کیا ہم میڈیا والوں نے ہی ایک دوسرے پر غداری، غیر ملکی ایجنٹ ہونے اور ملک دشمنی کے الزامات نہیں لگائے؟جب مولانا نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی پر بات کرتے ہوئے کورونا کے عذاب یا آزمائش ہونے کی بات کی تو اس پر بھی مولانا کا مذاق اڑایا گیا اور مذاق اڑانے والوں میں حکومتی وزرا تک شامل تھے۔
ہو سکتا ہے اُن وزرا کو اس بات کا علم نہ ہو لیکن فحاشی و عریانیت کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ ایمان والوں میں فحاشی پھیلاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق: جس کسی قوم میں فحاشی عام ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی اُس قوم پر موت کو مسلط کر دیتا ہے۔ (مفہوم) اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق جب کسی قوم میں کھلے عام فحش کام ہونے لگ جائیں تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔
(مفہوم) گویا مولانا نے فحاشی و عریانیت کے حوالے سے جو بات کی وہ سو فیصد اسلام کی بات ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے چند ممبران اور ایم این ایز کی طرف سے اعتراض اور مولانا کا مذاق اڑایا جانا انتہائی شرم ناک عمل ہے جس کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے بلکہ اس پر ان وزرا کو معافی بھی مانگنی چاہیے۔باقی جہاں تک مولانا طارق جمیل کا تعلق ہے تو بہت سے لوگوں کی دانست میں اُنہوں نے معافی مانگ کر ٹھیک کیا، وگرنہ میڈیا نے اُن کے پیچھے پڑے رہنا تھا۔ لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔ مولانا تبلیغِ اسلام کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں اور اس بارے میں اُن کی بہت سی خدمات ہیں۔ اُن سے میری گزارش ہے کہ میڈیا، حکمرانوں اور دوسرے طاقتور طبقوں کوتبلیغ ضرور کریں اور اُنہیں سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین بھی کریں لیکن ایسا تاثر نہ آنے دیں جیسے مولانا کی حکمران طبقہ سے دوستی ہے۔ اپنے آپ کو سیاسی تنازعات سے بھی بچائیں اور ہو سکے تو میڈیا سے دور رہیں، ماسوائے اُن پروگرامز کے جن کا مقصد خالصتاً تبلیغِ اسلام ہو۔