اسلام آباد(آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ ن لیگ کو کس شخصیت کے کہنے پر بل کی حمایت پر راضی کیا گیا ہے۔مسلم لیگ(ن) نے آرمی ایکٹ کی حمایت کی تھی جس کے نتیجہ میں آرمی چیف جنرل باجوہ آئندہ تین سال تک عسکری قیادت کریں گے۔حکومت ذرائع نے بتایا ہے کہ
وفاقی حکومت نے براہ راست مسلم لیگ ن سے آرمی ایکٹ بارے رابطہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی شریف برادران سے ایکٹ پر حمایت کا مطالبہ کیا تھا لیکن شہبازشریف اور نوازشریف نے لندن میں بیٹھ کر اپنے تمام منتخب پارلیمنٹیرین کو حکم دیا کہ وہ آرمی ایکٹ کی حمایت کریں۔مسلم لیگ ن کے تمام پارلیمنٹیرین نے کوئی احتجاجی لفظ ادا کئے بغیر ایکٹ کی حمایت کردی جس کے نتیجہ میں جنرل باجوہ کو مزید تین سال کے لئے توسیع مل گئی۔عمران خان کی حکومت مسلم لیگ ن کی بل کی حمایت پر مایوس اور پریشانی کے عالم میں ہے اور اس بات کا کھوج لگا رہی ہے کہ کس شخصیت کے کہنے پر شریف برادران نے حمایت کی ہے اس کا جائزہ لینے کیلئے عمران خان نے اپنے تمام مشیروں اور کچن کابینہ سے بھی مشورے کر رہے ہیں اور مسلم لیگ ن اور ملک کی طاقتور اسٹبلشمنٹ بارے کے مابین خلیج سکڑنے کی وجوہات اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔وفاقی وزیر شیخ رشید پہلے بھی متعدد بار اعلان کرچکے ہیں کہ شہبازشریف وکٹ کے دونوں اطراف سٹروک کھیل رہے ہیں لیکن بعض ناعاقبت اندیش پی ٹی آئی رہنما شیخ رشید کی باتوں کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور اسٹبلشمنٹ کے مابین خلیج کم ہونے سے عمران خان کی حکومت چند سیکنڈ میں گرجائے گی اورعمران خان کو جماعت کے اندر بھی شدید خلش،سازش اور بغاوت کا خطرہ ہے کیونکہ ابھی تک متعدد ارکان قومی اسمبلی اپنے من پسند ترقیاتی فنڈز بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
عمران خان نے تبدیلی کے نام پر عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ بھی جھوٹ ثابت ہوئے ہیں ملک کے اندر مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس سے عوام حکومتی کارکردگی پر شدید پریشان ہے۔عمران خان کے احتساب کا نعرہ بھی ناکام ہوا ہے کسی طاقتور سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لی جاسکی ،وفاقی حکومت معیشت،تعلیم،صحت،کھیل اور خارجہ امور پر بری طرح ناکام ہوچکی ہے
اور ان حالات میں اسٹبلشمنٹ اور ن لیگ کے مابین بڑھتے ہوئے رابطے اور تعلقات عمران خان کیلئے درد سر بن چکے ہیں۔وزیراعظم اپنے تمام حکومتی وسائل سے اس بات کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں کہ ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کے مابین رابطہ کیسے،کب اور کیوں ہوا ہے اور کس شخصیت کے کہنے پر ن لیگ نے آرمی ایکٹ کی حمایت کی ہے اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ شریف برادران نے کیا
براہ راست اسٹبلشمنٹ سے بات کی ہے یا اپنے سابق سیکورٹی مشیر جنرل جنجوعہ کے ذریعے رابطہ استوار ہوا ہے یا چوہدری نثار کے ذریعے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔اس حوالے سے اگلے ہفتے یا دنوں میں وزیراعظم اہم بیان جاری کریں گے جس سے وزیراعظم کی پریشانی اوراسٹبشلمنٹ اور ن لیگ کے مابین تعلقات بارے اہم انکشافات سامنے آئیں گے۔