اسلام آباد(آن لائن ) سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تحریر جواب اورحدیبیہ کیس کا تمام ریکارڈ طلب کر تے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار طلب کرکے کیس کی سماعت 11دسمبر تک ملتوی کردی ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کی ۔ کیس کی
سماعت شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ حدیبیہ ریفرنس کی دستاویزات کدھر ہیں جس پر خصوصی پراسیکیوٹر نیب عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ریفرنس خارج کیا تاہم عدالت کہے تو ریفرنس کی دستاویزات فائل کردیتے ہیں اس پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ حدیبیہ پیپرملز سے متعلق ریفرنس کی بات جے آئی ٹی کے کس والیم میں کی گئی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ والیم 8 میں حدیبیہ پیپرزملز ریفرنس کے بارے سفارشات دی گئی ہیں جس پر عدالت نے رجسٹرار آفس سے والیم 8 اور والیم 8 اے منگوالیا ،دوران سماعت جسٹس مشیرعالم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرزمل کے اصل ریفرنس کی دستاویزات دیکھناچاہتے ہیں، عمران الحق کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیاگیا اور منی لانڈرنگ کے لیے جعلی فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولے گئے جبکہ ملزمان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے کارروائی روک دی گئی تھی اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی کوجبری طورپر باہر بھیجنا یا کسی کاعدالت سے فرارہونا مختلف چیزیں ہیں جبکہ کس کے حکم پر نواز شریف کو باہر بھیجا گیا تھا، وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو اس وقت کے چیف
ایگزیکٹو پرویزمشرف کے حکم پر باہر بھیجا گیااس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فریقین بیرون ملک کب گئے جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ دسمبر 2000 میں جلا وطن ہوئے اور نومبر 2007 میں جلا وطنی سے واپس آئے جبکہ ملزمان 2014 میں مقدمہ پر اثر انداز ہوئے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کو ریفرنس پرکتنے عرصے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب کو ایک ماہ کے اندر
ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں دیئے کہ کیا کسی کے خلاف ریفرنس بنا کر اس پر ہمیشہ کے لیے تلوار لٹکائے رکھیں گے، ریفرنس کو طویل عرصہ تک زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا، آپ سمجھتے ہیں ہم اپیل پر ابھی حکم جاری کر دیں گے ،جسٹس مشیر عالم نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ حدیبیہ کا ریفرنس کہاں ہے، جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ پانامہ کے مقدمہ کے بعد اپیل دائر کی۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ ریفرنس پر دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس پر میری مکمل تیاری نہیں ہے تاہم حدیبیہ پیپر ملز 1999 تک خسارے میں چل رہی تھی،اس وقت کمپنی کے ڈائریکٹرز کے پاس بہت بڑی رقم تھی ، اس پر عدالت نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے احتساب عدالت کی کورٹ ڈائری اور اس وقت کے چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار بھی طلب کیا تو نیب کی جانب
سے دستاویزات پیش کرنے کے لئے 4 ہفتوں کی مہلت کی استدعا کی گئی تاہم عدالت نے نیب کی استدعا مسترد کردی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سنجیدگی دکھائیں، سپریم کورٹ نے خاص بینچ بنایاہے، کیا نیب ابھی بھی دباؤ میں ہے، وکیل نیب نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے ایساہی ہے، بعد ازاں عدالت نے نیب سے حدیبیہ پیپر ملز کیس کا مکمل ریکارڈ اور تحریر جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایاجائے
حدیبیہ پیپر کیس کے فریقین کب عوامی عہدے پر تھے کب جلاوطنی پر بھیجا گیا ، اس وقت کے چیئرمین نیب کا نام اور تقرری کا طریقہ کار کیا ہے ، چیئرمین نیب کی تقرری کا اختیار کس کے پاس ہے ، حدیبیہ ریفرنس قانون کی کس شق کے تحت بنایا گیا ہے ،احتساب عدالت میں ریفرنس پر کیا کاروائی ہوئی ، کیس بنیاد پر ریفرنس پر کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوئی عدالت نے نیب سے حدیبیہ ریفرنس کی بحالی کی درخواست کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 11دسمبر تک ملتوی کردی۔