اسلام آباد(این این آئی، آن لائن) سپریم کورٹ نے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق حکومت سے 30 نومبر تک پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ریاست ختم ہو جائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے ٗ کل کوئی اور مسئلہ ہوگا تو کیا پھر شہر بند ہوجائیں گے ٗتشدد کرنے کا نہیں کہیں گے ٗاگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔ جمعرات کو جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دھرنے پر 21 نومبر کو لئے گئے نوٹس پر سماعت کی۔ اس موقع پر وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی جانب سے جوابات عدالت میں پیش کیے گئے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے دور ان میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے اپنی رپورٹس جمع کرادی ہیں۔اس موقع پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ کا جائزہ لیا ٗجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ حکومت سمیت احتجاج والے بنیادی نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، کیا اسلام میں کوئی ڈنڈاہے ٗکیا قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے ٗ اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں ٗ کل کو کوئی اور اپنا موقف منوانے کیلئے راستے بند کر دے گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سب سے غلطی ہوتی ہے ٗمجھ سے جو غلطی ہو اس کا اعتراف کرتا ہوں، کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے، کیا اسلام میں دو رائے ہو سکتی ہیں، کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جبکہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں اسلام امن سے پھیلا ہے ڈنڈے سے نہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ معاشرے اور ذہن کو ڈنڈے سے نہیں بدل سکتے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
نے کہا کہ اتحاد، ایمان، تنظیم کہیں نظر نہیں آ تا، جس کو مرضی گالی دے دو، اگر یہ اسلامی باتیں ہیں تو مجھے قائل کریں ٗپاکستان دلائل دے کر بنا، ڈنڈے کے زور پر اچھی بات بھی اچھی نہیں لگتی اور دین میں کوئی جبر نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہو گیا، وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے ٗجب ریاست ختم ہو جائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے،
ہم تو تشدد کرنے کا نہیں کہیں گے، آرٹیکل 5 کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے، اگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دھرنے میں موبائل فون چل رہے ہیں ٗعوام کے ٹیکس کا پیسہ دھرنے پر لگ رہا ہے، دھرنے کے باعث عدالتی نظام خراب ہو گیا ٗ وکیل اور سائلین عدالت نہیں پہنچ رہے، دھرنے والی جماعت نے الیکشن بھی لڑا ٗ اس نام سے سیاسی جماعت رجسٹر کیسے ہوئی
جبکہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے ٗدھرنے والوں کو کیا حکومت چائے پیش کرتی ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوشش ہے معاملہ تشدد کی طرف نہ جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کی عظمت پر سمجھوتا نہیں ہو گا ٗ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج پیش رفت ہونے کا امکان ہے ٗجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کر دیں ٗ دھرنے کے علاقے کو سیل کریں
،17 دن سے یہ لوگ کھا پی کہاں سے رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آس پاس کے لوگ کھانا فراہم کر رہے ہیں جبکہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں ٗربیع الاول میں کوئی ایسی چیز نہیں چاہتے جو صورتحال کو خراب کرے، ایڈووکیٹ جنرل اسلاآباد نے عدالت کو بتایا کہ 169لوگوں کو گرفتار کیا اور 18مقدمات درج ہوئے جبکہ راستہ بند ہونے کے باعث ایک بچہ وفات پا گیا ٗ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بچے کا وفات
پانا معمولی بات نہیں ٗایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ٗدھرنے والوں کے دل میں یہ صورت سما جاتی تو وہ توبہ کرتے اورچلے جاتے، ایمبولینس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے،جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیا گذر رہی ہوگی ٗپارلیمان اور عدلیہ اپنا کام اور علماء اپنا کام کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کیلئے حکومت نے کیا اقدامات کیے جس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ پی ٹی اے
کو سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا کہا ہے ٗجسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ عدل کا راستہ روکنا بھی گناہ ہے ٗکیا عدالت کو بند کر کے گھر چلے جائیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے ٗاداروں کو بدنام کیا جارہا ہے ٗدھرنے والے میگا فون اورکرسیاں کہاں سے لے کر آئے، ہم کوئی احکامات نہیں دیں گے ٗحکومت کا جو کام ہے وہ خود کرے جبکہ دھرنے کے
اخراجات کون برداشت کررہا ہے؟نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ باہر سے آئے، آئی ایس آئی کو معلوم نہیں، آئی ایس آئی اتنا طاقتور ادارہ ہے، سنجیدگی دکھائیں، اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دیگا ٗ اٹارنی جنرل آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے، کیا دھرنے والے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں، دھرنے والے کیا ملنگ فقیر ہیں ٗان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور ان کے پیچھے کون ہے۔
کیا کوئی فارن فنڈنگ تو نہیں ہو رہی، دھرنے والوں نے مجھے گالیاں دیں تو ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جب کہ آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام موجود ہوں۔عدالت نے دھرنے سے متعلق آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے مثبت اقدامات کرکے رپورٹ پیش کریں جبکہ آئندہ سماعت پر عدالت نے آئی بی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران کو بھی طلب کرلیا ۔ سماعت کے دور ان
فاضل جج نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس تشدد کے علاوہ کوئی ایکشن پلان ہے جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم اقدامات کر رہے ہیں لیکن کچھ ایسے اقدمات ہیں جن کی تشہیر نہیں کی جارہی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انا اور تکبر سب سے بڑا گناہ ہے اور یہ سب انا کیلئے ہو رہا ہے، رحمت کاسلام کسی کے منہ سے کیوں نہیں نکل رہا، سب کے منہ سیگالم گلوچ نکل رہی ہے، ہم بھی پریشان ہوتے ہیں مگر
گالم گلوچ نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے ٗایک حوالہ دے دیں کہ راستہ بند کر دیا جائے ٗ اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا ٗ یہ تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چہلم حضرت امام حسینؓ کا وقت تھا جب وہ مظاہرین فیض آباد انٹرچینج پر آکر بیٹھے ٗہم نہیں چاہتے کہ خون خرابا ہو۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہم عام ملک میں نہیں اسلامی ریاست میں رہتے ہیں، لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی
ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے ٗ بتائیں کیا حکم کریں ٗذمے داری ریاست اور انتظامیہ کی ہے، ہم آپ کا کام نہیں کریں گے، پھر آپ ہی شکوہ کریں گے کہ ہمارے کام میں مداخلت ہوئی۔عدالت نے حکومت سے دھرنا مظاہرین کو فیض آباد انٹرچینج سے ہٹانے کیلئے پیشرفت رپورٹ 30 نومبر تک طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ناساز طبیعت کے باعث فیض آباد
انٹرچینج پر جاری مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی ہوگئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی ناساز طبیعت کے باعث کیسز کی سماعت نہ کرسکے۔عدالت نے گزشتہ سماعت پر دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے حکومت کو 2 روز کی مہلت دی تھی اورجمعرات کوحکومت نے دھرنا ختم کرنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرنا تھا۔ گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزیر داخلہ احسن
اقبال کو طلب کرتے ہوئے جڑواں شہروں کو ملانے والے انٹرچینج پر دھرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا جب کہ عدالت نے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کےشوکاز نوٹس بھی جاری کئے تھے۔دوسری جانب حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے اور کوئی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے
والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا 18ویں روز میں داخل ہوگیا ہے جب کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لئے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے، 14 روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کر کے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے، اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شدید پریشان ہیں۔