اسلام آباد (آئی این پی) وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر قائم ہوں، نیشنل ایکشن پلان میں جو ذمہ داری سویلین اداروں کی تھی کیا ہم نے وہ پوری کی، ٹرمپ کی تقریر کے بعد کی صورتحال ہمارے لئے مناسب نہ تھی، افغان معاملے کا امریکی فوجی آپشن ناکام ہو چکا، ایرانی قیادت نے بھی امریکہ کی افغان پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا، ایران، ترکی اور چین کے دوروں کا محور افغانستان اور دوطرفہ تعلقات تھے،
ہمارا مقصد دنیا کو باور کرنا ہے کہ پاکستان بھرپور طاقت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے تمام فریقین ایک صفحے پر ہیں، خطے میں امن کیلئے پاکستان کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے، امریکہ کے دورے کے دوران روسی اور افغان وزیر خارجہ سے بھی ملاقات ہو گی، ہم نے امریکی امداد سے انکار کیا اور ان کو افغانستان میں سیاسی حل کا مشورہ دیا ہے،2012میں،میں نے اصغر خان کیس پر اپنی اوقات سے زیادہ بات کر دی تھی جس سے چوہدری نثار ناراض ہو گئے تھے،پانچ سال گزر گئے اب صلح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔وہ جمعرات کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کی تقریر کے بعد کی صورتحال ہمارے لئے خوشگوار نہیں تھی، ہم ڈونلڈ ٹرمپ تقریر اور پالیسی سے بالکل اتفاق نہیں کرتے، افغانستان کے مسائل کے حل کیلئے ہم ٹرمپ کی تجویز سے بالکل اتفاق نہیں کرتے کیونکہ افغانستان کا ملٹری حل بالکل درست نہیں کیونکہ پچھلے 15,16سال سے ملٹری حل مسلسل ناکام ہوتا آ رہا ہے، الٹا دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ چائنہ میں تین اہم وزارت خارجہ کے عہدیداروں سے ملاقاتیں ہوئیں اور وہاں پر ہمارے نقطہ نظر کو پذیرائی ملی، اس کے بعد ایران کے دورہ پر بھی یہی بات واضح ہوئی اور ہمارے موقف کی تائید کی گئی کہ افغانستان مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دورہ ترکی کے دوران بھی میں نے ہمارے اور ان کے خیالات میں ہم آہنگی دیکھی،تمام تینوں ممالک کے دوروں پر یہ بات واضح ہوئی کہ وہاں پر بھی امریکی پالیسی پر تشویش پائی جاتی تھی، ایوان میں صدر حسن روحانی، نائب صدر اور وزری خارجہ سے افغان معاملے پر گفتگو ہوئی، آج امریکہ روانہ ہو رہا ہوں وہاں بارہ تیرہ روز قیام رہے گا،وہاں پر امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوں گی، اس کے ساتھ ساتھ روسی وزیر خارجہ، افغان وزیر خارجہ سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کو دکھائیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے، دنیا ہماری قربانیوں کو دیکھ رہی ہے، ہم نے اپنے وسائل سے جنگ لڑی، ٹرمپ کو شاید کسی نے صحیح معلومات نہیں دی، امریکہ سے ہمیں وہی پیسے ملے ہیں جو ان کی سپلائیز وغیرہ پر جو اخراجات آتے ہیں، افغان مہاجرین کا خرچہ ہم خود اٹھا رہے ہیں، ٹی ڈی پیز کی دوبارہ آباد کاری بھی ہم اپنے وسائل سے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہے، پاکستان امریکہ کی امداد کا محتاج نہیں ہے، ہم نے صرف امداد کیلئے امریکہ کو ’’نو‘‘کہا ہے، افغانستان کے 40سے 45فیصد حصے پر طالبان کی حکومت ہے، ہماری موجودہ خارجہ پالیسی حکومت اور فوج کی باہمی مشاورت سے بنائی جا رہی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ افغان مسئلے کے حل کیلئے حکومت اور فوج کی الگ الگ سمتیں ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دسمبر میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان گفتگو ہو گی، افغانستان میں طالبان کی افغان حکومت سے برسوں سے جنگ چل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے پاس افغانستان میں اتنی زیادہ محفوظ پناہ گاہیں ہیں تو انہیں پاکستان میں پناہ گاہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان کے بارڈر پر مصروف کیا گیا تا کہ ہمیں اپنے مسائل سے نکلنے کا موقع نہ ملے،
حقانی نیٹ ورک مشرقی افغانستان سے آپریشن کرتے ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح سے فوج نے عملدرآمد کیا حکومت کی طرف سے اس پر بہت سا کام کرنا ابھی باقی ہے، اس لئے کہتا ہوں کہ ہمیں اپنا گھر ابھی درست کرنا ہے، اپنے گھر کو درست کرنے کے بیان پر سو فیصد قائم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی خطرات کو پاکستان جانتا ہے مگر اندرونی خطرات ہمارے لئے زیادہ خطرناک ہیں۔ وزیرخارجہ نے کہا کہ حافظ سعید اور مسعود اظہار کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ ہے،
ایک ممنوعہ تنظیم کو کھالیں اکٹھی کرنے کی اجازت دینے پر پنجاب حکومت نے اس ڈپٹی کمشنر کو سبکدوش کر دیا وہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈپٹی کمشنر تھے، چوہدری نثار سے لڑائی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2012میں،میں نے ایک بیان دیا تھا میں نے شاید اصغر خان کیس پر اپنی اوقات سے زیادہ بات کر دی تھی اور چوہدری نثار سے ناراضگی کی وجہ یہی ہے، اس کے علاوہ اور تو کوئی وجہ نہیں ہے،
میری اسی بات کو نواز شریف نے اوقات بخش دی، ہماری بول چال ختم ہوئے پانچ سال گزر گئے اب صلح کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔خواجہ آصف نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر چین میانمار کے ساتھ نہیں ہے، ترکی فنڈ کے ذریعے بنگلہ دیش سے امدادی سامان لے کر روہنگیا مسلمانوں کو دے گا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے اپنے دوروں میں مسئلہ کشمیر پر بھی آواز اٹھائی اور تینوں ممالک نے ہماری حمایت کی،
پیلٹ گنز کے استعمال پر بھی ہم آواز اٹھا رہے ہیں،وزیراعظم دورہ امریکہ پر بھی مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائی جائے گی، چیئرمین نیب قمر زمان کو سفیر لگانے کی خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں، پی ٹی آئی اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے ایسے جھوٹے الزامات حکومت پر لگاتی ہے۔