لاہور (این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین ججز کو غیر جانبدار رہنے کا پابند بناتا ہے ،کوئی بھی جج اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکتا،ہمیں معلوم ہے کہ عدلیہ کا احترام کیسے ملحوظ رکھنا ہے ،قانون کی سوجھ بوجھ رکھنا ججز کے فرائض میں شامل ہے ،ماتحت عدالتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے رجحان کا ادراک ہونا چاہیے،جو ڈیشل افسرانقانون پر اپنی گرفت مضبوط بنائیں،قانون کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود بطور چیف جسٹس خود کو ٹریننگ کے لئے پیش کرتا ہوں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب جو ڈیشل اکیڈمی میں ماتحت عدلیہ کے ججز سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ممبر انسپکشن ٹیم محمد اکمل خان اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عظمیٰ اختر چغتائی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے جوڈیشل آفیسرز سے ملاقات کریں، وہ ایک کمانڈر کی طرح اپنے سپاہیوں سے ہر ضلع میں جا کر کے ملنا چاہتے تھے مگر کچھ مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا، اس لئے وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے مشکور ہیں جنہوں نے ایک چھت کے نیچے صوبہ بھر کے سیشن ججز اور سینئر سول ججز کو اکٹھا کر کے ملاقات کروائی۔ انہوں نے کہا کہ انسان کے وجود اور انصاف کی طلب ایکدوسرے سے جد ا نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی اوراس بناء پر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے وہاںکوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگاجس کی ایمانداری پر سب کو اعتماد ہوتا ہوگا ، جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی یہ ابتدائی شکل اپنی ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے
لیکن منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے ، آ ج یہ ادارہ مختلف قوانین کے طابع ہے اور منصفکوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسان اور انصاف دونوں ایک دوسرے کیلئے لا زم وملزوم ہیں ، وقت کے ساتھ معاشرے میں انصاف کی طلب میںاضافہ ہوا ہے،عدالتوں کو مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے،کوئی بھی جج اپنی مرضی اور منشا ء کے مطابق فیصلہ نہیں کر سکتا،جج انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کا پابند ہے،آئین ججز کو غیر
جانبدار رہنے کا پابندبنا تا ہے،انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے ،قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے قانون کو جاننا بہت ضروری ہے،بعض فیصلوں سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم قانون سے مرسع نہیں ہیں ،قانون کی سوجھ بوجھ رکھنا ججز کے فرائض میں شامل ہے ۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق کئے جانے والے سول ججز کے فیصلوں کو بھی ہم معتبر سمجھتے ہیں اور وہ سپریم کورٹ تک
بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو تمام جوڈیشل آفیسرز پر مکمل اعتماد ہے وہ اس ادارے کی سربلندی کیلئے سخت محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ مجھے جوڈیشل افسران سے ایک سال کی کارکردگی تحفے میں چاہیے، ایک سال پوری ایمانداری، دیانتداری، محنت و لگن سے کام کریں، پھر ایک سال کے بعد آپ کو اسکی عادت
ہو جائے گا اور آپ مکمل انصاف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل افسران کی ضروریات اور تقاضے ان کے علم میں ہیں، جوڈیشل افسران کی عزت نفس کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا، جوڈیشل افسران خصوصاََ فی میل ججز کی سہولت ، تحفظ اور تمام مسائل کا حل متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر لازم ہے۔ماتحت عدالتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے رجحان کا ادراک ہونا چاہیے،جو
ڈیشل افسران قانون پر اپنی گرفت مضبوط بنائیں،علم کا حصول ہمارادینی فریضہ ہے ، ججز کوچاہیے کہ پیچیدہ معاملات پر آپس میں تبادلہ خیال کریں ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ظلم کا نظام چل سکتا ہے نا انصافی کا نہیں ،ایماندار اور غیر جانبدار عدلیہ معاشرے کی ضرورت ہے ،انصاف کی فراہمی کیلئے ہمیں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانی ہیں،انصاف فراہم
کرنیوالے منصف کو خود بھی انصاف ملنا چاہیے،عدلیہ کی ضروریات سامنے ہیں انہیں پو را کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،ہمیں معلوم ہے کہ عدلیہ کا احترام کیسے ملحوظ خاطر رکھنا ہے،عدلیہ کو درپیش مسائل حل کریں گے ،عدلیہ میں ججز کی تربیت اہمیت کی حامل ہے ، اکیڈمی میں ججز کی تربیت کیلئے مختلف پروگرامز شروع کیے جانے چاہئیں ،سیکھنے کا عمل ساری زندگی جا ری رہتا
ہے،قانون کے بارے بہت کچھ جاننے کے باوجود خود کو بطور چیف جسٹس تربیت کیلئے اکیڈمی میں پیش کر تا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ ایتھوپیا میں ایک جج کی ٹریننگ بارے پتہ چلا ہے کہ وہاں یہ دورانیہ ایک سال ہے ۔ ہمارے ہاں مقدمات کے دبائو اور دیگر وجوہات میں تربیت کا کم موقع ملتا ہے ۔ جوڈیشل اکیڈمیز میں کوارڈی نیشن کا پروگرام کا سوچ رہے ہیں ۔ ہمیں درجا ت اور ترجیحات رکھنا پڑیں گی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام ججز کے پاس انصاف کے یکساں اختیارات اور طاقت ہے ۔ چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم تبادلوں کے حوالے سے بڑی واضح پالیسی لا رہے ہیں ،کسی کے کہنے پر ججز کی ٹرانسفرز نہیں ہو ں گی ، ہمیں خاتون ججزکی مشکلا ت کا بخوبی اندازہ ہے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے کام کر رہے ہیں، خاتون ججز کیلئے ڈائیورسٹی پالیسی کا
اعلان کرنے والے ہیں تاکہ وہ بھی مردججز صاحبان کی طرح بے خوف وخطر آزادانہ فیصلے سنا سکیں ،مجھے ڈسٹرکٹ جو ڈیشری پر فخر ہے ، میں تو اپنی جو ڈیشری کو کو رکمانڈر کہتا ہوں، ججز کی جتنی تعریف اور حوصلہ افزائی کی جا تی ہے اتنا ہی احتساب بھی سخت ہے جس کے اور بھی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ نئے آنے والے ججز کے لئے تربیت کا دورانیہ 6ماہ ہے ۔ انہوں
نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ماتحت عدلیہ توقعات کے مطابق نتائج دے گی ۔ فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ ججز میرا مان رکھیں گے اورانکے اندر ایک مثبت تبدیلی کا تاثر نظر آئے گا، جوڈیشل افسران کی طاقت کے بھروسے پر ہم ایک متحرک اور موثر عدلیہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، مجھے امید ہے میں اس سفر میں تمام جوڈیشل افسران کو اپنے شانہ
بشانہ پائوں گا۔اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی آمد پر خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی عدلیہ فاضل چیف جسٹس کی سربراہی اور رہنمائی میں بہتر سے بہتر کام کرے گی، انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جوڈیشل سروسز کے امتحانی
طریقہ کار کو سپیئریر سول سروسز کے برابر لا رہے ہیں، اکیڈمی میں پری سروس ٹریننگ کا دورانیہ چھ ماہ کر دیا گیا ، اس عرصہ میں جوڈیشل افسران نا صرف اکیڈمی میں تربیتی کورسز کریں بلکہ عدالتوںمیں بیٹھ کر بھی ٹریننگ کریں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صوبہ بھر کے ججز کیلئے ٹرانسفر پالیسی بنائی جارہی ہے جو پورے صوبے میں یکساں لاگو ہو گی، ساتھ ہی ساتھ فی میل
ججز کو بھی مضبوط کر رہے ہیں، پنجاب میں مثبت تبدیلی کا آغاز کیا جا چکا ہے،عدلیہ میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ گئی ہے۔ قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک سہیل ناصر اور ڈائریکٹرجنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عظمیٰ اخترچغتائی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر ڈسٹرکٹ جوڈیشری اور اکیڈمی کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو یادگاری تحائف بھی پیش کئے
گئے۔علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان سے وکلاء رہنمائوں کے وفد نے بھی ملاقات کی۔ چیف جسٹس لاہور لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون، ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ، عابد ساقی، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنایت اللہ اعوان، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی عظمت علی بخاری، جنرل سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن
آفتاب احمد باجوہ، صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن رانا ضیاء عبد الرحمان ، صدر ہائی کورٹ بار ایسو ایشن ملتان شیخ جمشید حیات اور صدر لاہور بار ایسو سی ایشن چودھری تنویر اختر سمیت دیگر وکلاء رہنمابھی موجود تھے۔چیف جسٹس آ ف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثارکا کہنا ہے کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں جس کا حل افہام و تفہیم سے حل نہ ہو سکے، ہماری آج کی نشست کا مقصد یہ
احساس کرنا ہے کہ ہمارے کچھ مسائل ہیں اور ہم نے مل جل کر ان کو حل کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ آج کی میٹنگ میں کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی سب نے اپنے دل کی باتیں کی ہیں اور یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ تمام بار ایسو سی ایشنوں اور بار کونسلز نے ہرتال کلچر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام پروفیشنل وکلاء عدالتوں میں غیر سنجیدہ عناصر کی جانب سے نازیبا رویے
کی مذمت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آج یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ عوام کا اعتماد ہمارے ادارے سے اٹھنا شروع ہوچکا ہے، ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ہم ان کے ضامن ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کی بقاء اس انصاف کے ادارے سے جڑی ہے، اگر کسی ملک کی عدلیہ فنکشنل
ہوتو اس ملک کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی نشست کا مقصد ہمیں اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کرنا تھا، ہمیں اپنی گفتگو کے حوالے سے ہوم ورک کرنا ہے، کسی بھی سیاست سے بالاتر ہوکر اس ادارے کی بالادستی کیلئے کام کرنا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کے ادارے کے دو ٹولز ہیں، جج اور وکیل ۔ ہمیں ان دونوں ٹولز کو غلط ہاتھوں میں جانے سے
روکنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نوجوان وکلاء ہمارا مستقبل ہیں، جن کی فلاح و بہبود اور مالی تعاون کیلئے تجاویز مرتب کی جانی چاہیں،ہمیں خود کو دغا نہیں دینا، اگر کچھ کرنا ہے تو کرنا ہے اوراگر نہیں کرنا تو پیچھے ہٹ جائیں، لوگ تو اپنی آئندہ نسلوں کیلئے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ہیں، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ فیک ڈگریوں کا معاملہ بہت سنگین ہے ، اس کے خاتمے کیلئے بھی اپنی تجاویز دیں، سپریم
کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ کا بھرپور تعاون آپ کو میسر ہوگا۔ اجلاس کے آخر میں سینئر قانون دان ملک سعید حسن (مرحوم) کے ایصال ثواب کیلئے دعا بھی کئی گئی،فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک سعید حسن کی اصل فیملی بار تھی اور میں انکی اس فیملی کے ساتھ تعزیت کرنا چاہتا ہوں۔ اجلاس میں موجود تمام وکلاء رہنمائوں نے ہڑتالوں کے کلچر کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور
عدالتوںمیںہونے والے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے ساتھ بدتمیزی نان پروفیشنل رویہ ہے، اگر کسی وکیل کو جج کے حوالے سے کوئی شکایت ہوتو وہ اپنی متعلقہ تحصیل بار ایسو سی ایشن یا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے رجوع کریں۔