خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین احتراماً کھڑی ہو گئیں‘ تھوڑی دیر بعد سیکرٹری ڈیفنس میجر جنرل محمد علی نے دوسرے شہید کا نام پکارا‘ اس کی بیوہ آئی‘ وہ بھی ایوارڈ لے کر واپس پلٹی تو دونوں خواتین اس کے احترام میں بھی کھڑی ہو گئیں تاہم اس مرتبہ دائیں بائیں موجود دو سینیٹرز بھی کھڑے ہو گئے‘ تیسرے شہید کی انائونس منٹ ہوئی‘ شہید کا والد بیٹے کی جرات کا ایوارڈ لینے آیا‘ وہ پلٹا تو اس مرتبہ مہمانوں کی تین قطاروں نے کھڑے ہو کر اسے رخصت کیا اور پھر احتراماً کھڑے ہونے والوں کی تعداد میںاضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ چھٹے شہید کی بیوہ کے بعدشہیدوں کے ہر وارث کا پورے ہال نے کھڑے ہو کر استقبال کیا‘ یہ ایوان صدر میں نئی روایت تھی‘ مجھے ایوان صدر میں متعدد تقریبات میں شرکت کا اتفاق ہوا‘ صدر ہائوس کا ایک پروٹوکول ہے اور اس میں شرکاء صرف تین وقت اپنی نشستوں سے کھڑے ہوتے ہیں‘
اول صدر جب ہال میں داخل ہوتے ہیں تو تمام شرکاء کھڑے ہو جاتے ہیں‘ دوم قومی ترانے کے احترام میں سارا ہال کھڑا ہو جاتا ہے اور سوم تقریب کے آخر میں جب فنکشن کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہے تو شرکاء کھڑے ہو کر صدر اور ان کے سٹاف کو رخصت کرتے ہیں‘ ان تین مواقع کے علاوہ ہال میں کوئی شخص کھڑا نہیں ہوتا لیکن 14 اگست 2025ء کی تقریب غالباً ایوان صدر کی واحد تقریب تھی جس میں شرکاء نے شہداء کے وارثوں کے لیے کھڑے ہو کر نئی روایت کی بنیاد رکھ دی اور اس بنیاد کا سہرا دو خواتین کے سر جاتا ہے اور یہ خواتین پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان اور ایم این اے حنا ربانی کھر تھیں‘ ان دونوں نے شہید سپاہی کی بیوہ کے احترام میں کھڑے ہو کر ایوان صدر کا پروٹوکول تبدیل کر دیا اور اس عورت‘ والد‘ بھائی اور بیٹے کو وہ عزت دی جو صدر اور قومی ترانے کو ملتی ہے جس نے قوم پر اپنا چشم و چراغ قربان کر دیا تھا‘ یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور دل سے شیری رحمان اور حنا ربانی کھر کے لیے دعا نکلی‘ یہ دعا یقینا شہداء کی فیملیز کے دلوں سے بھی نکلی ہو گی‘ بے شک دو خواتین کے اینی شیٹو نے پروٹوکول بدل دیا اور پوری حکومت‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان اور افواج پاکستان کے چیفس اپنے شہداء کے احترام میں کھڑے ہونے لگے‘ مجھے یقین ہے یہ روایت آگے بڑھے گی اور قوم بھی اپنے شہداء کا استقبال اسی طرح کیا کرے گی اور اس کا سارا کریڈٹ شیری رحمان اور حنا ربانی کھر کو جائے گا۔
یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے‘ انسان پیدائش سے موت تک روز دکھ‘ درد اور تکلیف جھیلتا ہے‘ ناخن درد سے وچھوڑے تک انسان ہر دکھ چکھ کر دنیا سے جاتا ہے لیکن اپنے جوان بیٹے کو دفن کرنا یا جوانی میں ایک دو بچوں کے ساتھ بیوہ ہو جانا یا چالیس پچاس سال کی عمر میں شہید بیٹے کی ماں بن جانا دنیا میں اس سے بڑا کوئی دکھ‘ کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور انسان نے جب یہ تکلیف خود منتخب کی ہو‘ وہ جب خود چل کر محاذ پر گیا ہو اور اس کے گھر والوں نے اسے خودرخصت کیا ہو تو آپ ان لوگوں کا حوصلہ دیکھ سکتے ہیں شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شہداء کو ایک ایسا درجہ دیا جو رب نے اپنے کسی نبی‘ کسی پیغمبر کو بھی عنایت نہیں کیا اور وہ ہے حیات جاوداں‘ ایک ایسی زندگی جس کا دھاگا مرنے کے بعد بھی نہیں ٹوٹتا‘ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے انہیںہرگز مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس موجود ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے‘‘ اور یہ وہ درجہ‘ یہ وہ فضیلت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اور اپنے انبیاء کو بھی محروم رکھا چناں چہ یہ لوگ اللہ کے پسندیدہ ترین بندے ہوتے ہیں اور دوسرا آپ ان لوگوں کا حوصلہ دیکھیے جو اپنے جوان بچوں‘ خاوندوں اور والدین کو دفن کر کے بھی پوری ہمت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں‘ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں اور ہم نے اگر ان کے احترام میں کھڑے نہیں ہونا تو پھر ہم کس کا احترام کریں گے اور کس کے لیے کھڑے ہوں گے؟ میری درخواست ہے پاکستان میں اب یہ رُول بن جانا چاہیے‘ ملک کے کسی بھی دفتریا پبلک پلیس پر اگر کسی شہید کا وارث آئے تو ہم سب کو کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرنا چاہیے‘ ہم ان کے بیٹوں کا متبادل نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ان کو احترام اور محبت دے کر ان کا دکھ تو کم کر سکتے ہیں‘
ان کے حوصلے تو بڑھا سکتے ہیں‘ میری وزیراعظم اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر شہداء کے لواحقین کو خصوصی کارڈز جاری کرا دیں تاکہ یہ لوگ جہاں بھی جائیں وہاں انہیں رعایت بھی دی جائے اور خصوصی احترام بھی‘ آفیسرز اپنی سیٹ سے اٹھ کر ان کی بات سنیں‘ یہ کارڈز صرف شہید کے والد‘ والدہ‘ بیوہ اور بڑی اولاد کو جاری کیے جائیں اور یہ ٹرانسفر ایبل نہ ہوں تاکہ اس میں فراڈ یا بلیک میلنگ کا عنصر شامل نہ ہو سکے‘ حکومت اگر خصوصی کارڈز جاری نہیں کرتی تو بھی یہ شہداء کی فیملی کے شناختی کارڈز کا رنگ بدل کر یا اس کے کونے پر محسن لکھ کر اسے خصوصی بنا سکتی ہے‘ اس سے شہداء کے احترام میں بھی اضافہ ہو گا‘ شہداء کی فیملیز کو اپنے خصوصی ہونے کا احساس بھی ہو گا اور عوام میں بھی قوم کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ پیداہو گا‘ دوسرا میں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں شہداء کی یادگاریں دیکھیں‘ میلبورن میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے شہداء کی بہت بڑی یاد گار ہے‘ وہاں روزانہ ہزاروں سیاح جاتے ہیں‘ فرانس کی آرک ڈی ٹرمف میں شہداء کے لیے مسلسل آگ جل رہی ہے‘ تاشقند میں سوویت یونین اور انقلاب روس میں شہید ہونے والوں کی دیوار ہے اور اس پر سب کے نام لکھے ہیں جب کہ امریکا کے بارے میں مشہور ہے یہ لوگ اپنے کسی سپاہی کی لاش کسی دوسرے ملک میں نہیں چھوڑتے‘ انہیں خواہ پوری رجمنٹ جنگ میں کیوں نہ جھونکنی پڑ جائے لیکن یہ اپنے شہید کی لاش امریکا واپس لے کر آتے ہیں اور امریکی صدر اس کے جنازے کو کندھا دیتا ہے‘
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فرانس میں امریکا کے 9388سپاہی مارے گئے تھے‘ اتنی زیادہ لاشوں کو امریکا لے جانا مشکل تھا چناں چہ امریکا نے پیرس کے مضافات میں فرانس سے 172ایکڑ زمین لی‘ اسے امریکا کی حدود قرار دیا اور اپنے شہیدوں کو وہاں دفن کیا‘ وہاں آج بھی دو قبرستان ہیں اور یہ دونوں انتہائی صاف ستھرے اور خوب صورت ہیں اور ان پر امریکی جھنڈا لہرا رہا ہے جب کہ پاکستان میں یہ عنصر مسنگ ہے‘ ہم 25 سال سے مسلسل حالت جنگ میں ہیں‘ ہمارے 90 ہزارلوگ شہید ہو چکے ہیں جن میں 10 ہزار کے قریب پاک فوج ‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ ہیں لیکن ہم نے آج تک قومی سطح پر شہداء کی کوئی بڑی یاد گار نہیں بنائی‘ پولیس اور فوج نے اپنی سطح پر یاد گاریں بنا رکھی ہیں لیکن یہ اداروں تک محدود ہیں‘ قومی سطح پر کوئی ایسی یاد گار موجود نہیں‘ میری حکومت سے درخواست ہے آپ فوری طور پر اسلام آباد میں شہداء کی بڑی یادگار بنائیں‘ یہ اگر ڈی چوک میں بنا دی جائے تو اس سے ڈی چوک کا ماضی بھی دھل جائے گا اور یہ مقام بار بار کے احتجاجوں سے بھی محفوظ جائے گا‘ حکومت کو چاہیے یہ اس یادگار کی دیواروں پر تمام شہداء کے نام اور شہروں کے نام کندہ کرا دے تاکہ عوام کو اندازہ ہو سکے کتنے لوگوں نے ہماری زندگی اور عیش و آرام کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں‘ یہ یادگار اگر ڈی چوک پر ہو گی تو غیرملکی مہمانوں کو بھی یہاں آسانی سے لایاجا سکے گا ‘حکومت کو چاہیے یہ ڈی چوک کے قریب رائونڈ ابائوٹ بنوا کر قانون بنا دے جو بھی گاڑی یہاں پہنچے گی وہ اپنی سپیڈ کم کر کے پہلے شہداء کو سلام کرے گی اور پھر آگے بڑھے گی اس سے بھی عوام کے دلوں میں شہیدوں کے احترام کا جذبہ بڑھ جائے گا۔
میرے پاس پوری معلومات نہیں ہیں لیکن چند برس قبل مجھے ایک فوجی افسر نے بتایا تھا پاک فوج شہداء کی فیملیوں کا بہت خیال رکھتی ہے‘ ہر چھ ستمبر کو تمام شہداء کے گھر رقم بھی جاتی ہے اور فوج کی طرف سے تحائف بھی‘ آرمی چیف شہداء کے لواحقین سے بھی ملتے ہیں اور ان کی تمام شکایات کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے تاہم پولیس اپنے شہداء کا اتنا خیال نہیں رکھتی‘ چند ڈی پی اوز اور سی سی پی اوز نے شہداء کے لیے فنڈز قائم کیے اور لواحقین کے لیے فنکشن بھی کرائے لیکن مجموعی صورت حال اتنی حوصلہ افزاء نہیں‘ میری درخواست ہے ریاست شہداء کو صرف شہداء سمجھے‘ انہیں فوج اور پولیس میں تقسیم نہ کرے‘ شہید صرف اور صرف شہید ہوتا ہے‘ ہم جب اسے فوجی‘ پولیس اور سویلین میں تقسیم کرتے ہیں تو ہم قوم میں تفریق بھی پیدا کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی بھی لے لیتے ہیں کیوں کہ اللہ نے تمام شہداء کو زندہ قرار دیا تھا‘ اس نے انہیں فوجی اور سویلین میں تقسیم نہیں کیا تھا چناں چہ حکومت تمام شہداء کے لیے یکساں پالیسی بنائے اور تمام شہداء اور اس کے وارثوں کے ساتھ برابر سلوک کرے‘ اس سے بھی ریاست کے احترام میں اضافہ ہو گا اور آخری بات جو قوم اپنے شہیدوں کا احترام نہیں کرتی‘ جو قوم اپنی حرمت پر مرنے والوں کی عزت نہیں کرتی سوال یہ ہے دنیا اس کا احترام کیوں کرے گی؟ وہ انہیں قابل عزت کیوں سمجھے گی؟ آپ یقین کریں ہم جو دنیا بھر سے جوتے کھا رہے ہیں اس میں ایک عنصر شہیدوں سے بے اعتنائی بھی ہے۔
میں آخر میں ایک بار پھر شیری رحمان اور حنا ربانی کھر کا شکریہ ادا کرتا ہوں انہوں نے کم از کم ایوان صدر میں شہداء کی تکریم کی نئی روایت تو قائم کر دی لہٰذا ویل ڈن شیری اور ویل ڈن حنا۔