شاہد صدیق لاہور کے ارب پتی بزنس مین اور سیاسی کارکن تھے‘ لوئر مڈل کلاس سے تعلق تھا‘ غربت میں رہ کر ایم بی بی ایس کیا اور ڈاکٹر بن کر پریکٹس شروع کر دی‘ آغاز میں پریکٹس اچھی نہیں تھی لیکن پھر انہوں نے اقراء میڈیکل کمپلیکس کے نام سے درمیانے درجے کا کلینک اور لیبارٹری بنالی اور یوں یہ خوش حال ہو گئے مگر ان کی اصل کام یابی 1990ء کی دہائی میں شروع ہوئی‘ انہیں ملازمت کے لیے گلف جانے والے امیدواروں کے میڈیکل ٹیسٹ کا کانٹریکٹ مل گیا‘ یہ معاہدہ سونے کی کان تھی‘ ملک سے ہر سال دو تین لاکھ ہنرمند ملازمت کے لیے باہر جاتے ہیں اور یہ سب ڈاکٹر شاہد صدیق کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کراتے تھے لہٰذا ڈاکٹر صاحب بستر پرہوتے تھے اور ان کے اکائونٹ میں کروڑوں روپے جمع ہو چکے ہوتے تھے‘
ڈاکٹر صاحب کواس ایک معاہدے نے ارب پتی بنا دیا اور یہ لوئر مڈل کلاس سے براہ راست اپر کلاس بلکہ سپر اپر کلاس میں لینڈ کر گئے‘ انہوں نے اپنی رقم مختلف پراجیکٹس میں انویسٹ بھی کر دی‘ اس سرمایہ کاری نے ان کی دولت کو دوگنا اور تین گنا کر دیا‘ ڈاکٹر صاحب کے تین بچے تھے‘ بیٹی سب سے بڑی تھی‘ اس کی عمر اس وقت 30 سال ہے‘ دوسرے نمبر پر قیوم ہے‘ اس کی عمر 24 سال اور تیسرے نمبر پر دوسرا بیٹا تیمور آتا ہے‘ یہ 21 سال کا ہے‘ بچوں کی تعلیم اعلیٰ سکولوں‘ کالجوں اور سوسائٹی میں ہوئی‘ یہ بچے رئیس تھے‘ خاندان کی زندگی بظاہر آئیڈیل تھی‘ ان کی گروتھ لوگوں کو حیران کر رہی تھی‘یہ خوش بھی لگتے تھے لیکن فیملی کے اندر کی صورت حال مختلف تھی‘ ڈاکٹر شاہد صدیق کو اللہ تعالیٰ نے ارب پتی بنادیا تھا لیکن ان کی سوچ ہزاروں سے اوپر نہیں گئی تھی لہٰذا وہ ایک ایسے امیر شخص تھے جو اندر سے غریب تھا‘ وہ ایک ایسا شخص تھے جو شکل‘ لائف سٹائل‘ گاڑیوں اور پراپرٹیز سے امیر دکھائی دیتاتھا لیکن اس کا دل اور ہاتھ غریبوں کی طرح تنگ تھا‘ ڈاکٹر صاحب کی اس حرکت نے خاندان اور ان کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیا‘ ان کی دوسری غلطی ان کی سیلف میڈ اپروچ تھی‘
دنیا کے تمام سیلف میڈ لوگ اپنے بچوں کو بھی اس راستے سے گزارنا چاہتے ہیں جس سے گزر کر یہ خود کام یابی تک پہنچے تھے‘ اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں‘ پہلی وجہ یہ لوگ طویل جدوجہد کی وجہ سے کام یابی کے راستے کو سمجھ جاتے ہیں‘ یہ جان جاتے ہیں کام یابی ڈسپلن‘ محنت‘ معاشی بیلنس‘ ہنر اور عاجزی کا کمبی نیشن ہے‘ انسان جب تک اس پورے کمبی نیشن پر عمل نہ کرے یہ کام یاب نہیں ہوتا لہٰذا یہ اپنے بچوں اور بہن بھائیوں کو یہ کمبی نیشن سکھانے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں‘ یہ انہیں بار بار اپنی سٹرگل کی کہانیاں سناتے ہیں اور اس دوران بھول جاتے ہیں ان کے بچے ایک امیر باپ کے بچے ہیں اور امیر باپ کے بچوں کا کام یابی اور سٹرگل کا نظریہ سیلف میڈ لوگوں سے مختلف ہوتا ہے‘ دوسرا‘ سیلف میڈ لوگ واپسی کے خوف کا شکار ہوتے ہیں‘ یہ کیوں کہ انتہائی برے حالات سے نکل آتے ہیں لہٰذا انہیں خطرہ ہوتا ہے کہیں کسی غلطی سے یہ دوبارہ ان حالات کا شکار نہ ہو جائیں یا ان کے امیر بچے غریب نہ ہو جائیں چناں چہ یہ انہیں ٹوکتے اور سمجھاتے رہتے ہیں اور ٹوکنے اور سمجھانے کے اس عمل کے دوران یہ اپنے خاندان سے اپنے تعلقات خراب کر بیٹھتے ہیں‘ ڈاکٹر شاہد صدیق کے ساتھ بھی یہی ہوا‘یہ بچوں کو راہ راست پر رکھنے کی کوشش میں گھر میں اکیلے رہ گئے۔
ڈاکٹر صاحب کا بڑا بیٹا قیوم شاہد اعلیٰ سوسائٹی کے چکر میں پھنس گیا‘ گرل فرینڈز بھی بنائیں اور کوکین بھی لینے لگاجس کے بعد اس کا والد سے جھگڑا شروع ہو گیا‘گھر کا ماحول کھچائو کا شکار ہو گیا‘ اس کے گروپ میں شہریار نام کا ایک لڑکا بیٹھتا تھا‘ یہ ایک خوش شکل لڑکا تھا اور اپنی شکل وصورت کی وجہ سے ماڈلنگ کرتا تھا اور ایکٹنگ میں منہ مارتا تھا لیکن خاندانی لحاظ سے غریب اور عملی طور پر مکمل فارغ تھا‘ اس کی ساری کام یابیاں زبانی جمع خرچ تھیں اور اس کی آمدنی بیس تیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی اور یہ اپنے اخراجات قیوم شاہد جیسے نوجوانوں اور آنٹیوں سے پورے کرتا تھا‘ اس کا والد اور چچا موٹر سائیکل اور چھوٹی موٹی گاڑیاں چوری کرتے تھے‘ شہریار کا زیادہ تر وقت قیوم شاہد کے ساتھ گزرتا تھا‘ ڈاکٹر شاہد صدیق جوبلی ٹائون میں ایک پلازہ بنا رہے تھے‘ یہ جنوری 2024ء میں اپنی سائٹ پر گئے تو کسی نے ان پر گولی چلا دی‘ ان پر سات فائر ہوئے مگر یہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے‘ حملہ آور بھاگ گیا‘ پولیس آئی‘ اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج جمع کیں تو انہیں کیمرے میں ایک شخص کی جھلک مل گئی‘
اس کی شناخت کی کوشش کی گئی مگر شناخت نہ ہو سکی‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی زیادہ پیچھا نہیں کیا‘ اس کے بعد جمعہ دواگست کو ڈاکٹر صاحب اپنے بیٹے تیمور کے ساتھ جمعہ پڑھنے گئے‘ مسجد کے قریب ان پر دوسرا حملہ ہوا‘ ان پر پانچ گولیاں چلائی گئیں جن میں سے چار انہیں لگ گئیں اور یہ موقع پر ہلاک ہو گئے تاہم بیٹا تیمور محفوظ رہا‘ یہ کیوں کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن تھے لہٰذا یہ قتل ایجنسیوں کے کھاتے میں پڑ گیا‘ اس تاثر کو ان کے خاندان نے بھی ہوا دی اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی‘ دوسرے دن ان کی نماز جنازہ ہوئی‘ جنازہ ان کے بیٹے قیوم شاہد نے پڑھایا‘ بیٹا اداس اور پریشان بھی تھا بہرحال قصہ مختصر سی آئی اے لاہور نے تفتیش شروع کی اور کمال کر دیا۔
پولیس کو موقع واردات پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک گاڑی نظر آئی‘ کیمروں کے ذریعے گاڑی کو ٹریک کیا گیا تو موقع واردات سے سات کلو میٹر دور پہنچ کر اس کی نمبر پلیٹ تبدیل ہو گئی‘دونوں نمبر پلیٹس کی تفصیلات لی گئیں تو معلوم ہوا گاڑی وہاڑی میں رجسٹرڈ ہے‘ مالک سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا میں نے گاڑی بیچ دی تھی‘ نئے مالک سے پتا چلا اس نے بھی بیچ دی تھی‘ یہ گاڑی اس کے بعد تیسرے شخص کے ہاتھوں بکی اور آخر میں اسے ایک خاتون نے خرید لیا‘ پولیس خاتون تک پہنچی تو اس نے بتایا‘ میں نے یہ گاڑی رینٹ پر دے رکھی ہے‘ پولیس ’’رینٹ اے کار‘‘ کے آفس پہنچ گئی‘ اس نے بتایا‘ گاڑی فلاں شخص نے کرائے پرلے رکھی ہے یوں ملزم کا شناختی کارڈ اور نام نکل آیا‘ پولیس نے رینٹ اے کار والے کو ڈاکٹر صاحب پر جنوری میں حملہ کرنے والے شخص کی تصویر دکھائی‘ اس نے دیکھتے ہی تصدیق کر دی یہ گاڑی اسی شخص نے کرائے پر لی تھی یوں ثابت ہو گیا جنوری اور اگست میں حملہ کرنے والا شخص ایک ہی ہے اور اس کا نام اور پتا بھی نکل آیا‘ اس شخص کے شناختی کارڈ سے موبائل کالز کا ڈیٹا نکالاگیا تو وہ شہریار کا چچا نکلا‘ شہریار اور اس کا والد واردات کے دوران قاتل سے مکمل رابطے میں تھے‘
پولیس نے اس کے بعد شہریار اور قیوم شاہد کے موبائل فون کا ڈیٹا دیکھا تو یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے جس کے بعد پولیس نے اسی شام شہریار کو اٹھا لیا‘ یہ انتہائی کم زور ثابت ہوا اور اس نے دس منٹ میں بتا دیا قیوم شاہد نے اپنے والد کو مروانے کے لیے مجھے ہائر کیا تھا‘ جنوری میں اس نے ہمیں چار لاکھ روپے دیے تھے اور اب دو کروڑ میں سودا ہوا تھا‘ پولیس نے اس کے بعد قیوم شاہد کو بلایا‘ اسے بٹھایا‘ پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا اور صرف ایک سوال کیا ’’شہریار کون ہے؟‘‘ اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا‘ پولیس نے اس کے بعد اسے بتایا تم نے اسے پندرہ لاکھ روپے دیے تھے جن میں ایک نوٹ پھٹا ہوا تھا‘ اس کے بعد قیوم کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی‘ یہ مان گیا والد کو اس نے قتل کرایا تھا‘ شہریار کے والد اور چچا کو 15 لاکھ روپے دیے تھے اور باقی ایک کروڑ 85 لاکھ روپے وراثت میں حصہ ملنے کے بعد ادا کرنے تھے‘ پولیس نے پوچھا ’’والد کا سب کچھ جب آپ کا تھا پھر آپ نے اسے قتل کیوں کرایا؟‘‘ قیوم کا جواب تھا ’’یہ سب کچھ میرا تھا مگر والد مجھے استعمال نہیں کرنے دیتا تھا‘ یہ دولت اگر مجھے بڑھاپے میں ملتی تو میرے کس کام آتی لہٰذا میں نے اسے راستے سے ہٹا دیا‘‘ پولیس یہ سن کر حیران رہ گئی بیٹے کو والد کے قتل پر کوئی ندامت بھی نہیں تھی اگر تھی تو اسے پکڑے جانے کی پریشانی تھی‘ اس رویے نے پولیس کے رونگٹے بھی کھڑے کر دیے۔
میں نے اس کالم کی تیاری کے دوران سٹیک ہولڈرز سے چار سوال کیے‘ پہلا سوال‘ ڈاکٹر شاہد کی بیگم اور دوسرے بیٹے تیمور کا کیا ردعمل تھا‘ پتا چلا یہ دونوں شاک میں ہیں اور دونوں روز دعا کرتے ہیں اللہ کرے یہ خبر غلط ثابت ہو ‘ تیمور مدعی بھی ہے‘ شاید یہ آگے چل کر بڑے بھائی کو معاف کر دے اور یوں شاید یہ کیس بھی ختم ہو جائے‘ دوسرا سوال‘ کیا اس قتل میں اس کی گرل فرینڈ بھی ملوث تھی‘ یہ خبر غلط ثابت ہوئی‘ اس کی گرل فرینڈ امیر ماں باپ کی بیٹی ہے‘
اس نے آج تک اس سے دو ہینڈ بیگز اور انگوٹھی کے علاوہ کچھ نہیں لیا اور یہ منصوبے سے مکمل لاتعلق تھی لہٰذا گرل فرینڈ سے متعلق کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ یہ سوشل میڈیا سٹنٹ ہے‘ تیسرا سوال‘ کیا ڈاکٹر صاحب نے بیٹے کے لیے 13 کروڑ روپے کی کوئی گاڑی آرڈر کی تھی؟ یہ خبر بھی سوشل میڈیا سٹنٹ نکلی‘ گاڑی کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا اور آخری سوال کیا قیوم شاہد آئس کا نشہ کرتا تھا‘ یہ خبر بھی غلط تھی‘ یہ کوکین لیتا تھا اور اس قتل کا نشے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا‘ بیٹے کا مقصد صرف اور صرف باپ کی وہ دولت حاصل کرنا تھا جسے وہ بیٹے کو اندھا دھند استعمال نہیں کرنے دیتا تھا‘ یہ خالصتاً ایسے سیلف میڈ شخص کا قتل تھا جو اپنے بچوں کو کام یاب اور اچھا دیکھنا چاہتا تھالہٰذا اس کہانی سے یہ سبق ملا آپ اگر سیلف میڈ ہیں تو آپ اور آپ کے بچوں کی سوچ میں زمین آسان کا فرق ہو گا‘ اس فرق کو ہمیشہ سامنے رکھیں‘ آپ برے انجام سے بچے رہیں گے اور آخری بات بچوں کو شہریار جیسے لوگوں سے بچا کر رکھیں۔