طارق عباس قریشی میرے پرانے دوست ہیں‘ پولیس سروس میں ہیں‘ آج کل گوجرانوالہ میں آر پی او ہیں‘ کتابوں اور فلموں کے شیدائی ہیں‘ سرکاری ملازمت کے باوجود حس جمال بھی سنبھال رکھی ہے اور دماغ بھی‘ یہ گوجرانوالہ ڈویژن کے پولیس اہلکاروں کو پرفارمنس سر ٹیفکیٹ اور کیش ریوارڈ دینا چاہتے تھے‘ یہ مجھے موٹی ویشن سیشن کے لیے گوجرانوالہ بلانا چاہتے تھے‘ میں نے معذرت کر لی‘ میرا خیال تھا دنیا میں سب سے مشکل کام پولیس کو موٹی ویٹ کرنا ہوتا ہے۔
انسان اپنی کمپنی (صحبت) سے سیکھتا ہے‘ ہم ان پانچ لوگوں کی اوسط ہوتے ہیں جن میں ہم اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں اور پولیس اہلکاروں کا زیادہ تر وقت جرائم پیشہ لوگوں کی صحبت میں گزرتا ہے چناں چہ یہ ذہنی طور پر سخت ہو چکے ہوتے ہیں‘ آپ کبھی سرجن اور پولیس افسر کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ خون‘ زخم‘ لاشیں اور جرائم دیکھ دیکھ کر ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ روتے نہیں ہیں اور جو لوگ روتے نہیں ہیں ان کو موٹی ویٹ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے‘دوسرا پولیس اہلکار زبردست ایکٹر ہوتے ہیں‘آپ انہیں لیکچر دیں‘ یہ آپ کے سامنے بیٹھ کر ایسی ایکٹنگ کریں گے کہ آپ کو محسوس ہو گا یہ اندر سے بدل چکے ہیں لیکن جوں ہی دباﺅ ہٹے گا آپ ان کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ مجھے سردار مہتاب عباسی نے ایک دل چسپ واقعہ سنایا تھا‘ یہ 1997ءمیں کے پی کے (اس وقت صوبہ سرحد) میں وزیراعلیٰ تھے‘ یہ 12 اکتوبر کو سوات ڈویژن کے دورے پر تھے‘یہ سوات کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈی آئی جی نے ان کا استقبال کیا‘ پولیس نے انہیں گارڈ آف آنر بھی دیا اور یہ انہیں پروٹوکول بھی دیتی رہی اور سیکورٹی بھی‘ وزیراعلیٰ کی ریسٹ ہاﺅس میں علاقے کے معززین کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی‘ ڈی آئی جی پیچھے کھڑا تھااور پھر اچانک جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی‘ ملک میں مارشل لاءلگ گیا۔
اسلام آباد سے حکم آیا اور وزیراعلیٰ کو سیلوٹ کرنے والے ڈی آئی جی ہی نے مہتاب عباسی کو گرفتار کر لیا اور اسی ریسٹ ہاﺅس میں بند کر دیا‘ مہتاب عباسی کو پولیس کی بدلتی ہوئی نظریں آج تک نہیں بھولتیں لہٰذا میں سمجھتا تھا پولیس کو سمجھانا‘ پولیس کو موٹی ویٹ کرنا آسان کام نہیں لیکن طارق قریشی کا اصرار تھا چناں چہ میں حق دوستی ادا کرنے کے لیے گوجرانوالہ پہنچ گیا۔چیمبر آف کامرس کا ہال پولیس اور تاجروں سے بھرا ہوا تھا‘ ہم جس طرف دیکھتے تھے پولیس کی وردی نظر آتی تھی۔
یہ لوگ توجہ سے بات بھی سن رہے تھے اور اچھی اور بری باتوں پر ریسپانس بھی کر رہے تھے‘ فنکشن پولیس کے ”ہائی اچیورز“ کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا‘ سر ٹیفکیٹ اور کیش ریوارڈ کے لیے سٹیج پر آنے والے ہر پولیس اہلکار کی کہانی اور پرفارمنس متاثرکن تھی‘ یہ لوگ کس طرح انتہائی مشکل حالات میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں‘ یہ جذبہ حقیقتاً قابل ستائش تھا‘ ہر شخص‘ ہر اہلکار کی کہانی ہوش ربا تھی اور بے اختیار اسے سیلوٹ کرنے کو دل چاہتا تھا لیکن جب لقمان ہلاکو کو تلاش کرنے اور پاکستان لانے والے دونوں اہلکار سٹیج پر آئے تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
یہ گوجرانوالہ کے اصل ہیرو تھے اور لوگ دل وجان سے ان کے لیے تالیاں بجا رہے تھے‘ میں نے ان سے کہا ”آپ دیکھ لیں لوگ آپ کی کتنی عزت کر رہے ہیں‘ آپ کوشش کریں یہ عزت مزید بڑھے اور لوگ اگلی مرتبہ آپ کے ہاتھ چومیں“ دونوں اہلکاروں کے منہ سے ان شاءاللہ نکلا۔ان لوگوں کا کارنامہ چھوٹا نہیں تھا‘ یہ دہشت کی علامت لقمان بٹ کو انڈونیشیا سے پکڑ کر لائے تھے‘ لقمان ہلاکو کون تھا؟ یہ بھی ایک ہوش ربا داستان ہے‘لقمان ہلاکو کا اصل نام لقمان بٹ تھا‘ یہ گوجرانوالہ کے محلے فتومنڈ کا رہنے والا تھا۔
اس نے 2010ءمیں اپنے بھائی نعمان (نومی بٹ) کے ساتھ مل کر گینگ بنایا اور تاجروں سے بھتہ لینا شروع کر دیا‘ یہ لوگ ”ہلاکو گینگ“ کہلاتے تھے‘ گینگ کا پہلا ہدف فتومنڈ کا عارف بٹ تھا‘ عارف بٹ نے لقمان کو ادھار دے رکھا تھا‘ اس نے پیسے واپس مانگ لیے اور لقمان ہلاکو نے عارف بٹ اور اس کے دو ساتھیوں پر فائرنگ کر دی‘ علاقے میں خوف پھیل گیا اور یہ گینگ اس خوف میں پروان چڑھنے لگا‘ گینگ عام چھوٹے موٹے تاجروں سے بھتہ لیتے لیتے بڑے صنعت کاروں اور امپورٹر تک پہنچ گیا‘ یہ لوگ انکار کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیتے تھے۔
گوجرانوالہ کے مختلف تھانوں میں لقمان بٹ کے خلاف 28 پرچے درج ہو چکے تھے لیکن پورے شہر میں کوئی شخص ہلاکو کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ بہرحال پولیس نے 2012ءمیں اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا‘ لقمان بٹ کو پتا چل گیا اور یہ ملک سے بھاگ گیا‘ یہ دوبئی میں پناہ گزین ہو گیا لیکن اس کا گینگ چلتا رہا‘ لقمان ہلاکو کے نمائندے بھتے کی رقم جمع کر کے اسے دوبئی بھجوا دیتے تھے‘ تاجر اگر انکار کرتے تھے تو ہلاکو پہلے انہیں فون کرتا تھا اور پھر گولی کا نشانہ بنا دیتا تھا۔
لقمان ہلاکو کا کیس سب انسپکٹر خالد نواز کے حوالے کر دیا گیا‘ یہ ایمان دار‘ بہادر اور پڑھا لکھا نوجوان ہے‘ اس نے لقمان ہلاکو کی ٹریول ہسٹری اور رقم کی منتقلی کا ریکارڈ نکال کر انٹرپول کو دے دیا‘ انٹرپول نے ریڈ وارنٹ جاری کر دیا‘ لقمان ہلاکو چالاک تھا‘ یہ دوبئی سے ملائیشیا بھاگ گیا‘ یہ ملائیشیا سے تھائی لینڈ اور پھر وہاں سے انڈونیشیا چلا جاتا تھا‘ موبائل فون استعمال نہیں کرتا تھا‘ انٹرنیٹ کالز کرتا تھا اور ساﺅتھ افریقہ اور انگلینڈ کے نیٹ ورک استعمال کرتا تھا۔
خالد نواز نے ساﺅتھ افریقہ اور برطانیہ کے پولیس ڈیپارٹمنٹس سے بھی رابطہ کیا لیکن یہ بھی لقمان ہلاکو کو ٹریس نہ کر سکے‘ پولیس کو چھ ماہ کی کوشش سے ٹپ ملی ہلاکو تھائی لینڈ میں نظر آیا تھا‘ پولیس نے خالد نواز کو تھائی لینڈ بھیج دیا‘ خالد نواز تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں اس کا پیچھا کرتا رہا‘ یہ تین ماہ بعد ملائیشیا میں اس کے قریب پہنچ گیا لیکن لقمان کو بھنک پڑ گئی اور وہ غائب ہو گیا یوں پولیس مشن ناکام ہو گیا‘ خالد نواز واپس آ گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔
یہ اس کا پیچھا کرتا رہا‘ ہلاکو اس دوران مسلسل بھتہ لیتا رہا‘ صنعت کار اسے ہر ماہ کروڑوں روپے بھتہ دیتے تھے‘ہلاکو کا زیادہ تر وقت ملائیشیا میں گزرتا تھا‘ طارق عباس قریشی نے خالد نواز کو ایک بار پھر ہلاکو کی تلاش میں ملائیشیا بھجوا دیا‘ اے ایس آئی فیصل معین بھٹہ بھی اس بار اس کے ساتھ تھا‘ لقمان ہلاکو اس دوران ملائیشیا سے انڈونیشیا چلا گیا ‘ اس نے وہاں شادی کر لی تھی اور یہ جعلی کاغذات تیار کر کے انڈونیشین بن چکا تھا‘ آپ اس کی چالاکی دیکھیں یہ جکارتا سے اڑھائی ہزار کلو میٹر دور جنوبی سماٹرہ کے چھوٹے سے قصبے میں رہ رہا تھا اور لوگ اسے انڈونیشین سمجھتے تھے۔
بہرحال خالد نواز اور فیصل معین اس تک کیسے پہنچے‘ اسے کس طرح گرفتار کیا گیا اور عدالت کو کس طرح یقین دلایا گیا یہ انڈونشین نہیں یہ پاکستانی ہے اور اس کا نام لقمان ہلاکو ہے‘ یہ داستان کسی بھی طرح ہالی ووڈ کی فلم سے کم دل چسپ نہیں‘اگر کوئی ڈائریکٹر اس پر فلم بنائے تو یہ باکس آفس کی سپر ہٹ فلم ہوگی‘ قصہ مختصر یہ دونوں افسر لقمان بٹ (ہلاکو) کو 24 جنوری کو پاکستان لے آئے‘ پولیس 25 جنوری کو اسلحہ برآمد کرانے کے لیے اسے ڈسکہ روڈ لے گئی‘ راستے میں اسے اس کے دشمن ماسٹر اعجاز رسول نے گولی مار کر قتل کر دیا یوں لقمان بٹ عرف ہلاکو اور اس کا گینگ دونوں ختم ہو گئے اور گوجرانوالہ کے لوگوں نے شکر ادا کیا۔
یہ داستان انتہائی دل چسپ تھی‘ہلاکو بٹ گوجرانوالہ کے بدنام زمانہ گینگسٹرننھو گورایا کی طرح دہشت کی علامت تھا‘ یہ بھی ملائیشیا میں بیٹھ کر گینگ چلا رہا تھا‘ ننھو گورایا کو ذوالفقار چیمہ 2009ئمیں کوالالمپورسے گرفتار کر کے لائے تھے اور وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا‘ پولیس نے اس کی لاش ٹرالی میں لاد کر پورے شہر میں پھرائی تھی اور لوگوں نے پولیس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی تھیں‘ لقمان ہلاکو بھی اسی لیول کا مجرم تھا‘ یہ تاجروں اور صنعت کاروں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کرتا تھا۔
لیکن آپ لطیفہ ملاحظہ کیجیے پولیس کے جن اہلکاروں نے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں داﺅ پر لگا کر لقمان ہلاکو کو گرفتار کیا‘ جو ڈیڑھ سال تک دوبئی‘ تھائی لینڈ‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مارے مارے پھرتے رہے‘ جنہوں نے دن دیکھا اور نہ رات اور جنہیں لقمان ہلاکو نے دس دس کروڑ روپے رشوت کی پیش کش کی مگر ان کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی‘ گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس نے انہیں اس کارنامے کے بدلے صرف پچاس پچاس ہزار روپے انعام دیا اور اس کے لیے باقاعدہ سٹیج سے اناﺅنسمنٹ بھی ہوئی۔
مجھے یہ دیکھ اور سن کر انتہائی شرمندگی ہوئی‘ دنیا میں فرض اور ایمان داری کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘ یہ دونوں پولیس اہلکار بھی رقم اور انعام سے بالاتر ہیں لیکن آپ ہمارے کاروباری طبقے کا ظرف ملاحظہ کیجیے‘ یہ دس سال لقمان بٹ کو کروڑوں روپے بھتہ دیتے رہے‘ یہ اس سے گالیاں بھی سنتے رہے اور گولیاں بھی کھاتے رہے لیکن جن لوگوں نے دن رات ایک کر کے‘ اپنی اور اپنے خاندان کی جان خطرے میں ڈال کر ہلاکو سے ان کی جان چھڑائی ان کے پاس اپنے محسنوں کے لیے صرف پچاس ہزار روپے تھے۔
یہ لوگ اتنی رقم کا اپنی گاڑیوں میں روز پٹرول ڈلواتے ہیں اور یہ وہ رویہ ہے جو لقمان ہلاکو جیسے لوگ بھی پیدا کرتا ہے اور پولیس کے فرض شناس افسروں کو کریز سے باہر نکل کر کھیلنے سے بھی روکتا ہے لہٰذا گوجرانوالہ کے تاجروں اور صنعت کاروں کو شرم آنی چاہیے اور انہیں فوری طور پر دونوں اہلکاروں کو کروڑ کروڑ روپے انعام دینا چاہیے تاکہ دوسرے پولیس اہلکاروں کو بھی ترغیب ملے‘ یہ بھی خالد نواز اور فیصل معین بنیں‘ یہ بھی فرض شناسی کو اپنا ایمان بنا لیں اور شہر میں کسی ہلاکوبٹ کو سر نہ اٹھانے دیں ورنہ دوسری صورت میں کوئی پولیس اہلکار کسی صنعت کار‘ کسی تاجر کے لیے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالے گا اور اگلی بار ہلاکو کی جگہ چنگیز خان آئے گا لہٰذا تاجرشرم کریں اور ان پولیس اہلکاروں کی عزت کریں‘یہ ان کے اصل محسن ہیں۔